رسائی کے لنکس

ایک سے زائد نشستوں پر انتخاب میں حصہ لینے پر بحث


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے آئندہ ماہ ہونے والے عام انتخابات میں بڑی سیاسی جماعتوں کے راہنما قومی و صوبائی اسمبلیوں کی ایک سے زائد نشستوں کے لیے بطور امیدوار میدان میں اتر رہے ہیں۔

ایک سے زائد انتخابی حلقوں سے الیکشن میں حصہ لینے کی روایت پاکستان میں نئی نہیں اور اب تک ہونے والے تمام عام انتخابات میں یہ دیکھنے میں آ چکا ہے کہ خاص طور پر بڑی جماعتوں کے قائدین ایسا کرتے ہیں جس کی ایک عمومی وجہ پارلیمان تک اپنی رسائی کو یقینی بنانا خیال کیا جاتا ہے لیکن بعض سماجی حلقوں کے خیال میں یہ رجحان درست نہیں۔ تاہم اس بارے میں غیر جانبدار حلقے ملے جلے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔

حال ہی میں سوشل میڈیا پر بھی ایسی بحث دیکھنے میں آ چکی ہے کہ جس میں کہا جا رہا ہے کہ ایک سے زائد نشستوں پر کامیابی کے بعد جب امیدوار ایک نشست کے علاوہ باقی کو چھوڑ دیتا ہے تو اس سیٹ پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں ایک بار پھر عوام کے ٹیکسوں سے جمع ہونے والا پیسہ اور ریاستی مشینری کے وسائل صرف ہوتے ہیں جو مناسب نہیں۔

شفافیت، احتساب اور قانون کی بالادستی کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم 'سینٹر فار پیس اینڈ ڈیولپمنٹ انیشی ایٹوو' (سی پی ڈی آئی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عامر اعجاز بھی اس رجحان کے خلاف ہیں اور اسے وقت اور وسائل کا ضیاع تصور کرتے ہیں۔

جمعرات کو وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف یہ کہ امیدوار ایک سے زائد حلقوں سے الیکشن میں نہ کھڑا ہو بلکہ امیدوار کو صرف اسی حلقے سے انتخاب لڑنا چاہیے جہاں اس کا اپنا ووٹ رجسٹر ہو۔

"یہ نہیں کہ وہ رجسٹرڈ ووٹر تو خوشاب میں ہے اور وہ کراچی میں لڑ رہا ہے۔۔۔یہ غالباً کیا تو اس لیے گیا تھا کہ اعلیٰ سیاسی قیادت کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ایک حلقے سے الیکشن لڑے اور ہار جائے۔۔۔لیکن میرا خیال ہے کہ اگر اعلیٰ قیادت میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ اپنے حلقے سے الیکشن جیت سکے تو اس کو واقعی ہی دوسرے حلقے میں لڑنے اور وہاں کی نمائندگی کا کوئی حق نہیں۔"

انھوں نے کہا کہ اس بارے میں الیکشن ایکٹ بالکل خاموش ہے جب کہ خالی ہو جانے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات میں ریاست کو نہ صرف اضافی خرچ کرنا پڑتا ہے بلکہ اس حلقے کی معیشت پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔

"ڈیڑھ دو کروڑ حکومت کا لگ جاتا ہے پھر سکیورٹی کے مسائل ہیں وہ اپنی جگہ ہے اس پورے حلقے میں اس (ضمنی انتخاب کے) دن چھٹی ہوتی ہے ایک دن کے لیے معاشی سرگرمی ختم ہو جاتی ہے تو اس کا بھی نقصان کا جائزہ لیا جائے تو کروڑوں تک بات پہنچ جاتی ہے۔"

لیکن الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری افضل خان اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کے بقول اس رجحان میں کوئی مضائقہ نہیں۔

"یہ جمہوریت اور وفاق کے لیے صحت مند مشق ہے ایسا لیڈر جو ہر جگہ پر لوگوں میں یکساں مقبول ہے اور وہ الیکشن میں کھڑا ہوتا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں اور اس پر کوئی بڑا خرچہ نہیں ہوتا۔"

جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والی موقر غیر سرکاری تنظیم 'پلڈاٹ' کے ڈائریکٹر احمد بلال محبوب کے خیال میں اس رجحان میں کوئی قباحت نہیں اور ایسے امیدواروں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے جو ایک سے زائد نشستوں پر میدان میں اترتے ہیں۔

"اس کا حل یہ ہو سکتا ہے کہ ایسے لوگ جو ایک سے زائد حلقے سے کھڑا ہونا چاہیں ان سے پوچھ لیا جائے کہ آپ کا بنیادی حلقہ کون سا ہے اور اس کے لیے الیکشن فیس اتنی ہو گی اگر آپ دوسرے حلقے سے کھڑے ہوں گے تو اس پر آپ (الیکشن کمیشن) پانچ چھ گنا فیس بڑھا دیں تا کہ جو ضمنی انتخاب پر خرچہ ہے وہ یہاں سے نکل آئے، ٹیکس دینے والوں کا پیسہ خرچ نہ ہو۔"

25 جولائی کو اعلان کردہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف، پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت بعض دیگر سیاسی راہنما بھی ایک سے زائد حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG