رسائی کے لنکس

پاک چین تعلقات عالمی تناظر میں


پاک چین صدور
پاک چین صدور

سکیورٹی کے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے چین کے حالیہ چھ روزہ دورے سے دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کی عکاسی ہوتی ہے ۔ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعدیہ ان کا چین کا پانچواں دورہ ہے ۔ چین پاکستان کو علاقے میں بھارت کی بالا دستی سے تحفظ کا احساس فراہم کرتا ہے۔ دوسری طرف وہ افغانستان میں اپنے اسٹریٹجک مفادات کے لیے پاکستان پر بھروسہ کرتا ہے ۔

ایسا لگتا ہے کہ صدر زرداری کے دورے کا مقصد یہ تھا کہ چین کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے آمادہ کیا جائے ۔ بیجنگ میں مسٹر زرداری بنکاری سے لے کر دفاعی صنعتوں تک سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیتوں سے ملے ۔ انھوں نے پاکستان کے توانائی کے شعبے میں چین سے مدد کی درخواست کی اور کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کاروباری تعلقات کو وسعت دینے کے کافی مواقع موجود ہیں۔

مسٹر زرداری اور چینی صدر ہوجن تاؤ نے چھ سمجھوتوں پر دستخط کیے لیکن ان کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں۔

سومِت گنگولی انڈیانا یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان چاہتا ہے کہ چین اس کی معیشت کے لیے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں اور اس کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں اس کی مدد کرے جب کہ چین ، افغانستان کے مستقبل کو سمجھنے میں پاکستان پر تکیہ کیے ہوئے ہے۔ ان کےکہنا ہے’’پاکستانی حالیہ دنوں میں طالبان کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں اور صدر کرزئی کو اس بات پر قائل کرنےکی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ طالبان کے ساتھ سمجھوتہ کر لیں کیوں کہ امریکہ جولائی 2011 میں افغانستان سے واپسی شروع کرنے کی تیاری کر رہا ہے‘‘۔

گنگولی کہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان میں ایسی حکومت چاہتا ہے جس میں طالبان شامل ہوں کیوں کہ اس کا خیال ہے کہ اس قسم کی حکومت پاکستان کی ہمدرد ہوگی۔ پاکستان کی طرف سے کرزئی پر خاصا دباؤ پڑ رہا ہے اور چینیوں کو یہ تجسس ہے کہ افغانستان میں مستقبل میں حالات کیا رُخ اختیار کریں گے۔

کارنیج اینڈوومنٹ فار انٹرنیشنل پِیس کے مائیکل سوائن کہتے ہیں کہ چین افغانستان کی صورتِ حال کو پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کی روشنی میں دیکھتا ہے ۔’’اگر افغانستان میں کوئی مسئلہ پیدا ہو تا ہے اور پاکستان کو اس مسئلے کے بارے میں تشویش ہوتی ہے تو چین اس بات کا یقین کرنا چاہے گا کہ اس بارے میں اس کا موقف بھی وہی ہو جو پاکستان کا ہے ۔‘‘

سوائن کہتے ہیں کہ مسائل کی نوعیت کچھ بھی ہو سکتی ہے جن سے افغانستان میں استحکام کے بارے میں سوالات پیدا ہوتے ہوں، مثلاً بھارت کے اثر و رسوخ میں اضافہ یا طالبان کے ایسے گروپس کا طاقت حاصل کرلینا جو حکومت پاکستان کے مخالف ہوں۔

پروفیسر گنگولی کہتے ہیں کہ چین اور پاکستان کے درمیان قریبی تعلقات کی وجہ سے افغانستان میں چین کو تانبے اور دوسری معدنیات نکالنے کے منافع بخش ٹھیکے ملے ہیں۔

صدر اوباما نے افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی شروع کرنے کے لیے جولائی 2011 کی تاریخ مقرر کی ہے ، بشرطیکہ وہاں کے حالات اس کی اجازت دیں۔ تا ہم مائیکل سوائن جیسے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ چین یہ نہیں چاہتا کہ امریکہ عجلت میں افغانستان سے نکلے کیوں کہ اس طرح اور زیادہ عدم استحکام پیدا ہوگا اور اس سے علاقے کے لیے اور اس کے اقتصادی مفادات کے لیے خطرہ پیدا ہو جائے گا۔

سوائن کہتے ہیں’’یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے لیکن میر ے خیال میں چین یہ بھی نہیں چاہتا کہ امریکہ طویل عرصے کے لیے افغانستان میں رہے۔چین افغانستان میں ایسی مستحکم حکومت چاہتا ہے جس کے ساتھ وہ کام کر سکے۔ جو اس کے اقتصادی مفادات کو جو کافی وسیع ہیں اور خوب پھل پھول رہے ہیں قبول کرے اور اس کے ساتھ ہی وہ حکومت پاکستان کے ساتھ مِل جُل کر کام کرنے کو تیار ہو۔‘‘

چین نے افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے ۔ اس میں کابل کے جنوب میں اینک وادی میں تانبے کی کانوں کو ترقی دینے کا کئی ارب ڈالر کا پراجیکٹ بھی شامل ہے ۔اس کے علاوہ اس نے کمیونیکیشن کی بنیادی سہولتوں کو ترقی دی ہے اور دوسرے کئی منصوبوں کے علاوہ، ہسپتال اور آبپاشی کے نظام تعمیر کیے ہیں ۔

بعض ناقدین نے چین کی پالیسی پر تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن چینی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کے ساتھ چین کے تعلقات سے علاقے میں امن، استحکام اور خوشحالی کو فروغ ملتا ہے ۔

XS
SM
MD
LG