پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کا دھرنا بدستور جاری ہے۔
اُدھر عوامی تحریک کی ایک درخواست پر اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے 31 اگست اور یکم ستمبر کو پارلیمنٹ ہاؤس کے قریب تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنوں اور پولیس میں تصادم کے نتیجے میں دو افراد کی ہلاکت کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
عدالت نے پیر کو اپنے فیصلے میں کہا کہ درخواست پر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ ابھی تک تفصیلی فیصلہ سامنے نہیں آیا، اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی جا سکتی ہے۔
درخواست گزار کی طرف سے ان افراد کی ہلاکتوں کی ذمہ داری وزیراعظم نواز شریف، پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے علاوہ وفاقی وزراء پر عائد کی گئی جن میں وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیر برائے ریلوے سعد رفیق شامل ہیں۔ جب کہ چیف کمشنر اور اسلام آباد پولیس کے سربراہ پر بھی الزام عائد کیا گیا ہے۔
پولیس کے وکیل کا عدالت میں موقف تھا کہ اہلکاروں کو مظاہرین کے خلاف فائرنگ کے لیے اسلحہ فراہم نہیں کیا گیا اور اُنھوں نے گولی نہیں چلائی
اُدھر عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے کرنسی نوٹوں پر ’’گو نواز گو‘‘ لکھنے کی مہم واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہ ایسا گورنر اسیٹیٹ بینک کی طرف سے ایک بیان کے بعد قانون کے احترام میں کیا گیا۔
پیر کو جمہوریت کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان میں بعض تجزیہ کاروں اور قانون سازوں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں جاری احتجاج سے جمہوریت کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی اُمور عرفان صدیقی نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’بعض اوقات ایک جمہوری جدوجہد بھی جب کناروں سے چھلک جاتی ہے تو پھر اس کے لیے اپنے اوپر قابو رکھنا مشکل ہو جاتا ہے اور انہونیاں ہو جاتی ہیں یہ ہماری تاریخ رہی ہے۔‘‘
اُدھر عمران خان پر بھی کار سرکار میں مداخلت پر مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، عمران خان اتوار کی رات دیر گئے پولیس کی تحویل میں موجود اپنے اہلکاروں کو چھڑوا لے گئے تھے۔
عمران خان کا موقف ہے کہ اُن کی جماعت کے کارکن بے قصور تھے۔
واضح رہے کہ موجودہ سیاسی کشیدگی کے باعث چین کے صدر ژی جنپنگ اپنا دورہ اسلام آباد ملتوی کر چکے ہیں۔ اس بارے میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اُمور خارجہ طارق فاطمی نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے اور مفاہمت کی یاداشتیں متاثر نہیں ہو گی۔
ملک میں سیاسی کشیدگی کے خاتمے کے لیے جاری مذاکرات تعطل کا شکار ہیں لیکن بات چیت کی حامی سیاسی قوتوں کا کہنا ہے کہ موجودہ مسئلے کا حل بالآخر مذاکرات ہی سے ممکن ہے۔