رسائی کے لنکس

اوباما کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی سےمتعلق تقریر پر ملا جلا ردِ عمل


اوباما کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی سےمتعلق تقریر پر ملا جلا ردِ عمل
اوباما کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی سےمتعلق تقریر پر ملا جلا ردِ عمل

مشرقِ وسطیٰ کےسیاسی حالات کےحوالے سے کچھ مبصرین تقریرکو’ خوش آئند‘ تصور کرتےہیں

صدر براک اوباما کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی سے متعلق تقریر کے بارے میں ملا جلا ردِ عمل سامنے آرہا ہے۔ جہاں مصر اور تیونس کو اقتصادی امداد دیے جانے کے فیصلے کو سراہا جا رہا ہے, وہیں علاقے میں جاری بحران کے بارے میں مؤقف نہ اختیار کرنے پر اور اسرائیل اور فلسطین تنازع کے بارے میں دیے گئے بیانات پر کچھ حلقوں میں تقریر پر تنقید کی جارہی ہے۔

رائے عامہ یہ ہے کہ مصر اور تیونس میں عوامی انقلاب کے ذریعے حکومتوں کی تبدیلی ایک خوش آئند قدم تھا۔ لیکن دونوں ملکوں کومعاشی طور پر اِس کی قیمت ادا کرنی چاہیئے۔

مقتدا قندیل مصر کے اکنامکس اسٹڈی سینٹر کی ڈائریکٹر ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اقتصادی صورتِ حال کافی مشکل ہوگئی ہے، کیونکہ مالی وسائل کی وجہ سے ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ اِس لیے ، اُن کے خیال میں، مالی امداد اور پیسے تک رسائی صورتِ حال کو بہت حد تک بہتر کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔

مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی حالات کے حوالے سے کچھ مبصرین تقریر کو’ خوش آئند‘ تصور کر رہے ہیں۔اسلامک سینٹر فور نارتھ امریکہ (اِسنا) کے ڈائریکٹر زاہد بخاری کہتے ہیں کہ یہ امریکی پالیسی میں بہت بڑی تبدیلی ظاہر کرتی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ بش انتظامیہ کے مقابلے میں اوباما انتظامیہ نے کھل کر جمہوریت کے حق میں بات کی ہے۔

تاہم مصر کے ایک جمہوریت کے حامی کارکن، قاسم نے صدر اوباما کی تقریر سے مایوسی کا اظہار کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ صدر اوباما نے دوہرا معیار ظاہر کیا ہے۔ اُن کے بقول، ’ہم نے دیکھا کہ اُنھوں نے کس طرح صاف الفاظ میں کہا کہ معمر قذافی کو اقتدار چھوڑ دینا چاہیئے۔ لیکن جب بحرین کی حکومت کے بارے میں بات ہوئی تو صرف یہ کہا کہ وہاں کی حکومت کو قانون کی حکمرانی نافذ کرنی ہوگی۔‘

البتہ، ڈاکٹر زاہد بخاری نے اِس بات سے اتفاق نہیں کیا۔ اُن کے بقول، بحرین کے بارے میں صدر اوباما نے کافی اور مناسب بات کی۔ شام کے بارے میں بہت سخت بات کی اور اُس کے ساتھ ہی ایران کو بھی رگیدنے کی کوشش کی۔ اِس لحاظ سے، اُن کے بقول، صدر کی بات خاصی منصفانہ تھی۔

اسرائیل و فلسطین کے تنازع کا ذکر کرتے ہوئے صدر اوباما نے زمین کے کچھ حصے کے تبادلے کے ساتھ 1967ء کے سرحدی حدود کی بنیاد پر ’دو ریاستوں‘ کی تشکیل کی بات کی۔

تاہم، کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ اصل مسئلے اس زمین پر یہوری بستیوں کی مسلسل تعمیرکا ہے، جس کو روکنے کے لیے صدر اوباما نے کوئی بیان نہیں دیا۔

صدر اوباما نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ فلسطین کی ایک آزاد ریاست کے قیام کے معاملے کو اقوامِ متحدہ میں لے جانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

واشنگٹن میں قائم اسرائیل پراجیکٹ کے ایلن اینسر کا اِس بارے میں کہنا تھا کہ اُن کے خیال میں اسرائیلی اِس بات پر خوش ہوں گے کہ اُنھوں نے یہ کہا ہے ۔اُن کے الفاظ میں: ’ہم بھی خوش ہیں کہ اُنھوں نے یہ کہا ہے۔ لیکن، میرا خیال نہیں کہ اِس سے کوئی فرق پڑے گا، کیونکہ فلسطینی راہنما اِس بات پر مصر ہیں کہ وہ ایسا ضرور کریں گے۔‘

اِس سوال پر کہ صدر اوباما نے مشرق وسطیٰ کے بارے میں اِس وقت اتنی مفصل پالیسی کیوں بیان کی، ڈاکٹر زاہد بخاری کا کہنا تھا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ عرب دنیا میں بغاوت کی لہر اٹھنے کے تناظر میں اپنا کردار ادا کرے۔ اِس لیےامریکی صدر نے اپنی تقریر میں کافی اقدامات کا اعلان کیا، خاص طور پر مصر اور تیونس کے لیے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG