جمعے کووائٹ ہاؤس میں ہونے والی میٹنگ کے بعد امریکی صدر براک اوباما اور اسرائیلی وزیراعظم بینجامن نتن یاہو نے کہا ہےکہ مشرق وسطیٰ میں امن کے راستے میں اختلافات حائل ہیں۔
یہ میٹنگ مسٹر اوباما کے ایک روز قبل مستقبل میں اسرائیل کی ممکنہ سرحدوں کے بارے میں دیے گئے بیان پر تناؤ کے تناظرمیں ہوئی۔ مسٹر نتن یاہو نے کہا کہ وہ مسٹر اوباما کی کوششوں کی قدر کرتے ہیں ،اور کہا کہ ’اسرائیل امن چاہتا ہے۔ میں امن چاہتا ہوں۔‘
دونوں راہنماؤں کی وائٹ ہاؤس میں ملاقات ہوئی، جس سے قبل جمعرات کو مسٹر اوباما نے خارجہ پالیسی سے متعلق تقریرمیں کہا کہ اسرائیل کی سرحدیں کچھ شرائط کے ساتھ اُن خطوط پر ہونی چاہئیں جس طرح سے1967ء کی چھ روزہ جنگ سے قبل تھیں۔
اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے مسٹر نتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل کچھ رعایتیں دینا چاہتا ہے ، تاہم وہ 1967ء کی حد تک جانے کے لیے تیار نہیں، جنھیں اُنھوں نے ’ناقابل دفاع‘ قرار دیا۔
جمعرات کومحکمہ خارجہ سے مسٹر اوباما نے اپنی پالیسی تقریر میں کہا کہ یہ شرائط زمینوں کے تبادلے کے بارے میں باہمی رضامندی پر مشتمل ہوں گی تاکہ دونوں ریاستوں کےلیےمحفوظ اور تسلیم شدہ سرحدیں قائم کی جاسکیں۔
ایسے میں جس وقت مسٹر اوباما اور مسٹر نتن یاہو کی ملاقات جاری تھی، چار ملکی بین الاقوامی مصالحت کاروں نے، جو کہ تقریبا ً ایک عشرے سےمشرق وسطیٰ میں سمجھوتے کے لیےکوشاں رہے ہیں، مشرق وسطیٰ میں امن کے بارے میں اپنے ایک بیان میں مسٹر اوباما کی سوچ کی حمایت کی۔ امریکہ کےعلاوہ چارملکی گروپ میں اقوام متحدہ، یورپی یونین اور روس شامل ہیں۔
فلسطینیوں نےجو اپنی ریاست کے لیے لابیئنگ کرتے رہےہیں، اِس بیان کو سراہا ہے۔