صدر براک اوباما اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کے درمیان جمعے کو ہونے والے مذاکرات مشرق وسطیٰ کے بارے میں صدر اوباما کےپالیسی خطاب کےایک دِن بعد ہوئے جِس میں صدر نے اسرائیل فلسطین تنازعے کےحل کی توثیق کی اور کہا کہ سرحدوں کا تعین اُن سرحدوں کی بنیاد پر کیا جائےجو1967ء کی چھ روزہ جنگ سے پہلے تھیں۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ فریقین کو باہمی رضامندی سے زمین کا تبادلہ کرنا چاہیئے تاکہ آئندہ کسی بھی معاہدے کے تحت دونوںٕ ملکوں کے لیے محفوظ اور تسلیم شدہ سرحدیں قائم کی جائیں۔
عرصہٴ دراز سے امریکہ کا یہ مؤقف رہا ہے، جس کی تائید بین الاقوامی پارٹنرز نے بھی کی ہے، کہ کسی حتمی حل کی بنیاد 1967ء کی سرحدوں کے تعین پر ہونی چاہیئے، لیکن مسٹر نتن یاہو نے مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے سے پہلے مسٹر اوباما کی جانب سے اِس بات کی تائید پر برہمی کا اظہار کیا۔
نہایت سنجیدہ مذاکرات کے تقریباً 90منٹ بعد صدر اوباما اور مسٹر نتن یاہو نے ایک بیان جاری کیا۔
اِن مذاکرات کو انتہائی تعمیری قرار دیتے ہوئے مسٹر اوباما نے کہا کہ کسی معاہدے کو ِاس طرح سے تشکیل دینا ممکن ہے جس سے اسرائیل خود کو محفوظ کرسکے، لیکن اِس میں اُس کا حل بھی شامل ہ،و، جو بقول اُن کے، عشروں سے دونوں ملکوں کے عوام کے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے۔
فتح اور حماس کے درمیان اتحاد کا حوالہ دیتے ہوئے مسٹر اوباما نے کہا کہ وہ اِس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اسرائیل کے لیے ایک ایسی پارٹی کے ساتھ جو اسرائیل کے وجود کے حق کو نہیں مانتی سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات کرنا مشکل ہوگا۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے: