رسائی کے لنکس

مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں غیر معمولی تبدیلی رونما ہوئی ہے: اوباما


صدر اوباما اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں اہم پالیسی تقریر کرتے ہوئے۔
صدر اوباما اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں اہم پالیسی تقریر کرتے ہوئے۔

مسٹر اوباما نے شامی صدر بشار الاسد پر زور دیا کہ یا تو جمہوریت کے عبوری دور کی طرف آگے بڑھیں یا پھر ’ راستے سے ہٹ جائیں ‘۔ اُنھوں نے شامی حکومت سے مطالبہ کیا کہ احتجاجی مظاہرین پرگولی چلانےسےباز آئے، پُر امن احتجاج کی اجازت دے اورناجائز گرفتاریاں بند کی جائیں

امریکی صدر براک اوباما نےمشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں ’غیرمعمولی تبدیلی‘ کے رونما ہونے کا خیرمقدم کیا ہے، تاہم اُن کا کہنا تھا کہ زیادہ ترممالک نے تبدیلی کے مطالبے کا جواب تشدد کی راہ اپنا کردیا ہے۔

جمعرات کو امریکی محکمہ خارجہ سےکیے گئے اپنےنشری خطاب میں مسٹر اوباما نے کہا کہ اِس بات کی بڑی مثال لیبیا ہے، جہاں اُن کے بقول، معمر قذافی نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر امریکہ اور اُس کے ساجھے داروں نے اقدام نہ کیا ہوتا تو لیبیا میں ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہوتے۔

اُنھوں نے کہا کہ شام نے بھی ’قتل اور بڑے پیمانے پر گرفتاریوں‘ کی راہ اپنا رکھی ہے۔

مسٹر اوباما نے شامی صدر بشار الاسد پر زور دیا کہ یا تو جمہوریت کے عبوری دور کی طرف پیش رفت کریں یا ’راستے سےہٹ جائیں۔‘

اُنھوں نے شامی حکومت سے مطالبہ کیا کہ احتجاجی مظاہرین پر گولی چلانے سے باز آئے، پُر امن احتجاج کی اجازت دے اورناجائز گرفتاریاں بند کی جائیں۔

مسٹر اوباما نے توجہ دلائی کہ گذشتہ چھ ماہ کے دوران مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں دو لیڈردست بردار ہوچکے ہیں، اور اُن کا کہنا تھا کہ جوں جوں اپنے بنیادی حقوق کے حصول کی خاطر زیادہ لوگ اُٹھ کھڑے ہوں گے، مزید برج الٹ سکتے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ امریکہ کی پالیسی یہ ہوگی کہ خطے بھر میں اصلاحات کا عمل فروغ پائے اور جمہوریت کی طرف قدم بڑھایا جائے۔ اُنھوں نے کہا کہ اِس کوشش کی ابتدا مصر اور تیونس میں ہوچکی ہے۔

مسٹر اوباما نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دیرپا امن اب اور زیادہ ضروری ہوگیا ہے۔

مسٹر اوباما جمعے کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نتن یاہو سے ملاقات کرنے والے ہیں۔

صدرنے اس بات کو تسلیم کیا کہ فلسطینی حکومت میں ایران کی حمایت سے حماس کی شمولیت کے معاملےنے اسرائیل کے لیے’نمایاں اور جائز‘ سوالات کو جنم دیا ہے، بشمول یہ کہ وہ ایک ایسے گروپ کے ساتھ کس طرح مذاکرات کر سکتا ہے جو اسرائیل کے وجود کو ہی تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ فلسطینی راہنماؤں کو اِس سوال کا کوئی معتبر جواب فراہم کرنا ہوگا۔

اُنھوں نے کہا کہ القاعدہ اور اُس سے منسلک گروہوں کے خلاف سالہا سال کی لڑائی کے بعد امریکہ نے پاکستان میں کی گئی کارروائی میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرکے انتہا پسندوں کو ایک بڑا دھچکا پہنچایاہے۔ اُنھوں نے کہا کہ القاعدہ کا سرغنہ شہید نہیں ہے بلکہ وہ بڑی تعداد میں لوگوں کا قاتل ہے ، اور اُن کی ہلاکت سے قبل ہی القاعدہ اور بن لادن کا ظالمانہ تخیل ملیامیٹ ہورہا ہے۔

صدر اوباما نے کہا کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لوگوں نے چھ ماہ میں عدم تشدد کے ذریعے بہت بڑی تبدیلی حاصل کی ہے، جو دہشت گرد عشروں میں حاصل نہیں کر پائے۔

صدر نے مصر اور تیونس میں معاشی ترقی، اصلاح اور استحکام کی حمایت میں مالی اقدامات کرنے کا اعلان کیا، جہاں جمہوریت کے حامی مظاہرین نے طویل عرصے سے براجمان حکمرانوں کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا۔ وائٹ ہاؤس نے قرضے میں نرمی اور سرمایہ کاری کے سلسلے میں ابتدائی طور پر ایک ارب ڈالر، اور دونوں ممالک کو قرضے کی ضمانت کی مد میں مزید ایک ارب ڈالر فراہم کرنے کا اعلان کیا۔

مسٹر اوباما نے کہا کہ یمنی صدر علی عبد اللہ صالح کے لیے لازم ہے کہ وہ اقتدار منقتل کرنے کے اپنے عزم کو عملی جامہ پہنائیں۔

صدر براک اوباما نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں عدم تشدد کی بنیاد پر جمہوریت، ترقی، آزادی اظہار اور سیاسی اور معاشی تبدیلی کے حصول کے لیے ’ایک انقلابی لہربرپہ ہے‘، جس کا سہرا اُن ممالک کے لوگوں کے سر ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ امریکہ اِن جذبات کی قدر کرتا ہے۔

اِس حوالے سے صدر نے تیونس اور مصر میں کامیاب تبدیلی کا ذکر کیا اور کہا کہ معاشی اور سیاسی حالات کی بنا پر لوگ اکٹھے ہونے پر مجبور ہوئے اور پُر امن احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی۔

اُنھوں نے کہا کہ امریکہ تشدد کےاستعمال کی ٕمخالفت کرتا ہے، جب کہ وہ آزادی اظہار اور آزادی مذہب ،پُر امن سیاسی اور معاشی تبدیلی کی حمایت کرتا ہے۔

صدر نے کہا کہ ’حالات جوں کا توں رہنا کوئی آپشن نہیں رہا۔‘

اُنھوں نے کہا کہ انقلاب کے حق میں آئی ہوئی لہر’ ہوا کا ایک تازہ جھونکا ہے‘۔

صدر اوباما نے کہا کہ عدم تشدد کا مظاہرہ کرتے ہوئےجزیرہ نما عرب اور شمالی افریقہ میں اِس سطح کی تبدیلی کا حصول کوئی معمولی کامیابی نہیں ہے۔ غربت، بے روزگاری، تعلیم کے کم مواقع وہ دیگرعوام ہیں جو اِن مظاہروں کے پیچھے کارفرما ہیں۔

XS
SM
MD
LG