رسائی کے لنکس

شمالی و جنوبی کوریا کے درمیان فٹ بال میچ تھا یا مذاق؟


شمالی اور جنوبی کوریا کی ٹیموں کے درمیان میچ دیکھنے والے واحد تماشائی فٹ بال کی عالمی تنظیم 'فیفا' کے صدر تھے۔
شمالی اور جنوبی کوریا کی ٹیموں کے درمیان میچ دیکھنے والے واحد تماشائی فٹ بال کی عالمی تنظیم 'فیفا' کے صدر تھے۔

فٹ بال کے عالمی کپ مقابلے میں شرکت کے لیے کوالیفائنگ مرحلے میں شمالی اور جنوبی کوریا کی ٹیموں کے درمیان ایک میچ ہوا جس کا اختتام برابری پر ہوا۔ اس میچ میں اس قدر حیران کن چیزیں ہوئیں جس پر فٹ بال کی عالمی تنظیم فیڈریشن انٹرنیشنل فٹ بال ایسوسی ایشن (فیفا) نے بھی تعجب کا اظہار کیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے شمالی کوریا نے تاریخ میں پہلی مرتبہ مردوں کے کسی فٹ بال میچ کی میزبانی کی اور یہ میچ دونوں حریف ملکوں کی ٹیموں کے درمیان منگل کو کھیلا گیا۔

سخت پابندیوں میں ہونے والے اس میچ کو دیکھنے کے لیے گراؤنڈ میں ایک تماشائی بھی موجود نہ تھا اور میچ کو نہ تو براہ راست نشر کیا گیا اور نہ ہی غیر ملکی میڈیا کو میچ دکھانے کی اجازت دی گئی۔

میچ کو نہ تو براہ راست نشر کیا گیا اور نہ ہی غیر ملکی میڈیا کو میچ دکھانے کی اجازت دی گئی۔
میچ کو نہ تو براہ راست نشر کیا گیا اور نہ ہی غیر ملکی میڈیا کو میچ دکھانے کی اجازت دی گئی۔

یہی نہیں فٹ بال کی عالمی تنظیم 'فیفا' کے صدر گیانی انفین تینو بھی یہ میچ دیکھنے کے لیے گراؤنڈ میں موجود تھے۔ اور خالی گراؤنڈ میں تنہا انہوں نے یہ میچ دیکھا۔

میچ کے دوران دونوں ٹیموں کے کھلاڑی ایک دوسرے کو دھکے دیتے اور زور آزمائی کرتے رہے اور مقررہ وقت تک دونوں ٹیمیں کوئی گول نہ کرسکیں۔ اس طرح میچ برابری پر اختتام پذیر ہوا۔

جنوبی کوریا فٹبال ایسوسی ایشن کے نائب صدر چوئے یانگ ال کے مطابق ان کی ٹیم جب جمعرات کو شمالی کوریا پہنچی تو توقع تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان میچ دیکھنے کے لیے 50 ہزار شائقین گراؤنڈ میں موجود ہوں گے۔

فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا کے صدر میچ دیکھنے والے واحد تماشائی تھے۔
فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا کے صدر میچ دیکھنے والے واحد تماشائی تھے۔

اُن کے مطابق منگل کو میچ کھیلنے کے لیے ٹیم گراؤنڈ پہنچی تو وہاں خالی گراؤنڈ دیکھ کر نہ صرف وہ حیران ہوئے بلکہ کھلاڑی بھی پریشان تھے۔

چوئے یانگ ال کے مطابق انہوں نے شمالی کوریا کے حکام سے تماشائیوں کی غیر موجودگی سے متعلق سوال کیا تو اُن کا کہنا تھا کہ "شاید لوگ یہ میچ دیکھنا نہیں چاہتے۔"

نامور فٹ بال کلب ٹوٹینہم ہاٹ اسپر سے کھیلنے والے شمالی کوریا کے اسٹار فٹبالر سن ہونگ من اپنی ٹیم کی قیادت کر رہے تھے۔ اُن کے بقول شمالی کوریا کے کھلاڑیوں نے میچ کے دوران جارحانہ رویہ اپنایا اور وہ شکر گزار ہیں کہ تمام کھلاڑی زخمی ہوئے بغیر وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔

شمالی کوریا نے پہلی مرتبہ مردوں کے کسی فٹ بال میچ کی میزبانی کی تھی۔
شمالی کوریا نے پہلی مرتبہ مردوں کے کسی فٹ بال میچ کی میزبانی کی تھی۔

سن ہونگ کا کہنا ہے کہ انہوں نے پہلے کبھی میچ کے دوران اس طرح کی جارحیت نہیں دیکھی، یہ شاید ایک جنگ کی طرح تھا۔

شمالی کوریا کی سرکاری نیوز ایجنسی نے میچ کے اختتام پر صرف دو سطروں پر مشتمل ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ "حملوں اور جوابی حملوں کا کھیل کسی نتیجے کے بغیر اختتام پذیر ہوا۔"

فیفا کے صدر انفین تینو کا کہنا ہے کہ میچ میں شرکت کرنے کے بعد انہیں بہت مایوسی ہوئی جب کہ وہ تماشائیوں کی غیر موجودگی سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے بہت حیران ہیں۔

جنوبی کوریا کی ٹیم کے کپتان کا کہنا ہے کہ انہوں نے پہلے کبھی میچ کے دوران اس طرح کی جارحیت نہیں دیکھی، یہ شاید ایک جنگ کی طرح تھا۔
جنوبی کوریا کی ٹیم کے کپتان کا کہنا ہے کہ انہوں نے پہلے کبھی میچ کے دوران اس طرح کی جارحیت نہیں دیکھی، یہ شاید ایک جنگ کی طرح تھا۔

اس سے قبل فیفا کے صدر نے تجویز دی تھی کہ شمالی اور جنوبی کوریا مشترکہ طور پر 2023 میں کھیلے جانے والے خواتین ورلڈ کپ کی میزبانی کریں۔

یاد رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایسے موقع پر یہ میچ کھیلا گیا جب شمالی کوریا کی طرف سے میزائل تجربات کیے جارہے ہیں۔

جنوبی کوریا کے صدر مون جی ان اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جانگ ان نے چند ماہ قبل ایک ملاقات کے دوران 2032 کے اولمپکس مقابلے کے مشترکہ طور پر اپنے ملکوں میں انعقاد کے لیے کوشش کرنے سمیت کھیلوں کے فروغ پر اتفاق کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG