رسائی کے لنکس

جعفر ایکسپریس حملے میں 18 سیکیورٹی اہلکار وں کی ہلاکت کی تصدیق


ویب ڈیسک -- پاکستان فوج کے ترجمان ادارے (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل احمد شریف نے کہا ہے کہ جعفر ایکسپریس حملے میں ہلاک ہونے والے 26 مسافروں میں 18 سیکیورٹی اہلکار تھے۔ تاہم اُنہوں نے واضح کیا کہ یہ ہلاکتیں آپریشن سے پہلے ہوئیں۔

اسلام آباد میں وزیرِ اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے لیفٹننٹ جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے منصوبہ بندی کے ساتھ دُوردراز علاقے کا انتخاب کیا، جہاں تک رسائی نہایت مشکل تھی اور وہاں موبائل فون سگنلز بھی نہیں ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ 11 مارچ کو حملے سے پہلے شدت پسندوں نے فرنٹیئر کور (ایف سی) کی چیک پوسٹ کو نشانہ بنایا۔ بعدازاں ٹرین کے قریب دھماکہ کیا جس سے ٹرین رک گئی۔

اُن کے بقول قریبی پہاڑیوں سے دہشت گرد نیچے اُترے اور اُنہوں نے مسافروں کو یرغمال بنا لیا۔ خواتین اور بچوں کو ٹرین میں رہنے دیا گیا جب کہ باقی مسافروں کو ٹولیوں کی صورت میں ٹرین کے قریب ہی یرغمال بنا لیا گیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز کے اسنائپرز نے دہشت گردوں کو انگیج کیا جس سے یرغمال افراد کو فرار کا موقع ملا۔ دہشت گردوں نے اُن پر فائرنگ کی جس سے کچھ افراد زخمی بھی ہوئے۔

اُن کا کہنا تھا کہ فوج، ایئر فورس، فرنٹیئر کور اور کمانڈوز نے آپریشن میں حصہ لیا۔

لیفٹننٹ جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ 12 مارچ کو ضرار فورس کے کمانڈوز انجن کے راستے ٹرین میں داخل ہوئے اور دہشت گردوں کو نشانہ بنایا۔ اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں میں خود کش حملہ آور بھی موجود تھے جنہیں انتہائی مہارت سے اسناپئرز کے ذریعے ہلاک کیا گیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے بقول آپریشن کے دوران کوئی ہلاکت نہیں ہوئی جب کہ دہشت گردوں نے آپریشن سے پہلے مسافروں کو ہلاک کیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر 33 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا جب کہ 26 مسافر جان کی بازی ہار گئے جن میں 18 سیکیورٹی اہلکار شامل تھے۔ تین ریلوے ملازمین اور پانچ عام مسافر وں کی جان گئی۔

واضح رہے کہ منگل کو کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر مسلح افراد نے بولان کے علاقے میں حملہ کر کے مسافروں کو یرغمال بنالیا تھا۔ ٹرین میں 400 سے زائد افراد سوار تھے جن میں بعض مسافروں کا تعلق فوج سے تھا۔

کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے ٹرین حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔

افغانستان اور بھارت پر الزامات

احمد شریف چودھری کے مطابق دہشت گرد افغانستان میں موجود اپنے ہینڈلرز سے رابطے میں تھے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے بقول دہشت گردوں کو افغانستان میں اسپیس مل رہی ہے۔ دہشت گردوں کو افغانستان میں تربیت ملنے کے شواہد بھی موجود ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ بھارتی میڈیا نے آرٹیفیشل انٹیلی جینس اور دہشت گرد گروپ کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیوز کو پاکستان مخالف بیانیے کے لیے استعمال کیا ۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی میڈیا پروپیگنڈے کے طور پر جھوٹی ویڈیوز بار بار چلا رہا تھا۔ دہشت گردوں کی حمایت میں بین الاقوامی سوشل میڈیا وار فیئر چل رہی تھی جس کی قیادت بھارتئ میڈیا کر رہا تھا۔

بھارت کی جانب سے پاکستان فوج کے ان الزامات پر تاحال کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔ تاہم افغانستان میں طالبان حکومت نے جمعرات کو جاری کیے گئے بیان میں ان الزامات کی تردید کی تھی۔

افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے ـ'ایکس' پر جاری کیے گئے بیان میں کہا ہے کہ بلوچ مزاحمت میں شامل کوئی بھی رُکن افغانستان میں نہیں ہے اور نہ ہی کسی کا طالبان حکومت کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔

بھارت کی حکومت ماضی میں اس نوعیت کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے پاکستان پر سرحد پار دہشت گردی کے الزامات عائد کرتی رہی ہے۔


فورم

XS
SM
MD
LG