پاکستان میں عید الاضحیٰ پر قربان کئے جانے والے جانوروں کی کھالیں جمع کرنا سیاسی اور دینی، دونوں جماعتوں کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ دینی جماعتوں اور زیر انتظام چلنے والے مدارس اور سیاسی جماعتوں کے قائم کردہ رفاہی ادارے اپنی سالانہ آمدنی کا بڑا حصہ انہی کھالوں کو فروخت کرکے حاصل کرتے ہیں۔
بے شمار مساجد بھی جن کے اپنے اپنے مدرسے بھی ہیں وہ بھی ان کھالوں سے اچھی خاصی رقم حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، کچھ غیر سرکاری تنظیمیں اور فلاحی اداروں کو بھی ان کھالوں سے آمدنی ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہر عید الاضحیٰ پر اُن تمام اداروں کے درمیان زیادہ سے زیادہ کھالوں کے حصول کے لئے ’رسہ کشی‘ ہوتی ہے۔۔ ہر جماعت اور تنظیم کے پیش نظر یہ نکتہ رہتا ہے کہ’جتنی زیادہ کھالیں، اتنی زیادہ آمدنی‘۔
تاہم، اس بار محکمہٴداخلہ سندھ اور کمشنر کراچی کی جانب سے ایک سخت ترین ضابطہ اخلاق ترتیب دیا گیا ہے، جس کے حواے سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اب قربانی کی کھالوں کا جبری حصول مشکل ہوگا۔
کھالوں کا حصول اکثر اوقات جماعتوں اور تنظیموں یا ادارے کے درمیان کشیدگی کا باعث بن جاتا ہے۔ ایک دوسرے سے کھالیں چھیننا، قبل از قربانی ہی کھالوں کے لئے پرچیوں یا رسیدوں کے ذریعے بکنگ پر تکرار، دو لوگوں کے درمیان ’پہلے میں آیا۔۔ اس لئے کھال میں لوں گا‘ اور ’کھال پر پہلا حق میرا ہے‘ جیسے گرما گرم بحث مباحثے میں پہلے بات ’تو تو میں میں‘ تک پہنچتی ہے ۔۔پھر ہاتھا پائی پر اور اس کے بعدہتھیارتک نکل آتے ہیں۔ کھالوں پرتشدد اور قتل جیسے انگنت اورسنگین واقعات بھی ہوتے رہے ہیں۔
سخت ترین ضابطہ اخلاق
ان سب مسائل سے نمٹنے کے لئے رواں سال محکمہٴداخلہ سندھ اور کراچی انتظامیہ نے سخت ترین ضابطہٴاخلاق ترتیب دیا ہے۔ یہ ضابطہ سیکریٹری داخلہ محکمہ سندھ، نیاز عباسی کی زیرنگرانی ہونے والے اجلاس میں ترتیب دیا گیا۔ کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی بھی اس حوالے سے اہم ترین اجلاس منعقد کرچکے ہیں۔
کمشنرشعیب احمد صدیقی نے وائس آف امریکہ کو اس ضابطہ اخلاق کی تفصیلات جاری کی ہیں، جن کے مطابق:
کوئی بھی ادارہ، جماعت یا تنظیم گھر گھر جاکر کھالیں جمع کرنے کی مجاز نہیں۔
زبردستی کھالیں جمع کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
کھالیں جمع کرنے کے لیے کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کی اجازت لینا لازمی ہوگا۔
کھالیں جمع کرنے کے لیے شاہراہوں پر کیمپ لگانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
اس مقصد کے لئے لاوٴڈ اسپیکر بھی استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
کھالوں کی منتقلی کے لیے پولیس کو آگاہ کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
عید کے تینوں دن دفعہ 144نافذ ہوگی۔
عید پر ہر قسم کا اسلحہ لے کر چلنے پر بھی پابندی ہوگی۔
یہ ضابطہٴاخلاق گزشتہ سالوں کے دوران پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں ترتیب دیئے گئے ہیں۔ عمومی طور پر، سیاسی اور دینی دونوں جماعتوں کی جانب کھالوں کے حصول کے لئے عوام پر دباوٴ ڈالنے یا جبری کھال لینے کے واقعات ریکارڈ پر ہیں۔
کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی کا کہنا ہے کہ کھالوں کے حصول کے لئے کسی بھی قسم کا دباوٴ، زور یا زبردستی قانوناً جرم ہوں گے۔
شعیب احمد صدیقی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’شہر کے متعدد ایریاز ایسے ہیں جہاں گزشتہ سالوں کے دوران جبری طور پر کھالیں لینے، کھالیں چھیننے یا اسلحہ کے استعمال کی شکایات موصول ہوتی رہی ہیں۔ ان ایریاز کو ’ہائی رسک‘ زون میں رکھا گیا ہے اور عید کے تینوں دن یہاں قانون نافذ کرنے والوں کی بھاری نفری تعینات ہوگی، تاکہ کسی بھی قسم کی صورتحال سے نمٹا جاسکے اور ماضی جیسے واقعات روکے جاسکیں۔‘
کمشنر کے مطابق، ’شہر کے مضافاتی علاقے، سرجانی ٹاوٴن، خدا کی بستی، لیاری اور لیمارکیٹ ’ہائی رسک ایریاز‘ ہیں۔‘
کمشنر کراچی کے مطابق، ’ضابطہٴاخلاق کی خلاف ورزی کی صورت میں تعزیرات پاکستان کے تحت سخت کارروائی کی جائے گی جس کے تحت ایسا کرنے والے کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا۔ لاوٴڈ اسپیکر ایکٹ کی خلاف ورزی پر دوسال قید کی سزا ہوسکتی ہے، جبکہ جو قوانین تعزیرات پاکستان کے تحت نہیں آتے مثلاً کھالوں کے لئے پرچیاں دینا، وہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 506کے تحت قابل سزا ہوں گے‘۔