اب جب کہ امریکہ میں ڈیموکرٹیک اکثریتی کانگریس کی رخصتی میں چند دن ہی باقی رہ گئے ہیں اور نئے سال میں ری پبلیکن ارکان کی اکثریت رکھنے والی کانگریس اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے والی ہے، کئی ماہرین ان خدشات کا بھی اظہار کررہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ایوان کے اندرجماعتی بنیادوں پر زیادہ سخت محاذ آرائیاں دیکھنے میں آئیں گی، جس کے نتیجے میں قانون سازوں کے لیے امریکہ کو درپیش اہم مسائل سے نمٹنے دشوار اں پیش آسکتی ہیں۔
ڈیموکریٹس نے نومبر کے انتخابات میں ایوان میں اپنی اکثریت کھو دی تھی ، جس کا مطب یہ ہے ری پبلیکنزپارٹی سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے رکن جان بوئنر امکانی طورپر ننسی پیلوسی کی جگہ اسپیکر کی نششت سنبھالیں گے۔
ڈیموکریٹس کو سینٹ میں معمولی اکثریت حاصل ہے، جس سے واشنگٹن میں منقسم حکومت سامنے آئےگی۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا اس پر اتفاق ہے کہ رخصت ہونے والی کانگریس کو تاریخ کی ایک سب سے زیادہ قانون سازی کرنے والی کانگریس مانا جائے گا۔ نارمن اورنسٹین کا تعلق قدامت پسند امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ سے ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کانگریس کے بارے میں، جس کے متعلق عمومی طورپر امریکیوں کی رائے اچھی نہیں ہے، بیشتر کا خیال ہے کہ اس نے کچھ نہیں کیا ہے۔ کچھ کا کہنا ہے اس نے جو کچھ بھی کیا ہے خراب ہی کیا ہے۔
موجودہ کانگریس کی کامیابیوں میں نظام صحت کی جامع اور مالی اداروں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات شامل ہیں۔
اورنسٹین کہتے ہیں کہ ووٹروں نے ڈیموکریٹس کو بے روزگاری کی مسلسل بلند شرح کی سزادی ہے۔
ری پبلیکن کی جانب سے انہوں نے ٹی پارٹی نامی تنظیم کے ان بہت سے امیدواروں کا چناؤ کیا، جنہوں نے ٹیکسوں اور اخراجات میں کٹوتیوں اور حکومت کے ایک محدود کردار کے حق میں آواز بلند کی تھی۔
آنے والی ری پبلیکن کانگریس کے رکن ٹم سکاٹ ان میں سے ایک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قانون سازوں کی یہ نئی جماعت ہر ممکن طورپر تبدیلیاں لائے گی۔
ان کا کہناتھاکہ میرا مطلب ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب ہم 83 ارکان کے ایک گروپ کے ساتھ سامنے آئیں گے، یعنی ری پبلیکن کانفرنس کی ایک تہائی تعداد کے ساتھ ۔۔۔ تو ہمارے پاس تیزی کے ساتھ تبدیلی لانے کا ایک بھرپور موقع موجود ہوگا۔
اورنسٹین کہتے ہیں کہ اعتدل پسند ڈیموکریٹس اور ری پبلیکنز کی جگہ سخت موقف کے حامی نئے ارکان کے آجانے سے واشنگٹن کی فضا میں امکانی طورپر پہلے سے زیادہ یک رنگی پیدا ہوجائے گی۔
ہم نے تاریخ میں متعدد بار سخت کشیدگیوں کے واقعات دیکھے ہیں جن میں صدر نکس کا مواخذہ شامل ہے۔ ہم نے صدر کلنٹن کا احتساب دیکھاہے۔ ہم نے ویت نام کی جنگ اور ایران کو ہتھیاربیچنے کی تحقیقات جیسے واقعات دیکھے ہیں ۔ یہ وہ ادوار تھے جب دونوں پارٹیوں کے درمیان تناؤ اپنے عروج پر تھا۔ لیکن موجودہ صورت حال محض بدتر ہے۔
جریدے کانگریشنل کے تجزیہ کار ڈیوڈ ہوکنگزکا کہنا ہے ری پبلیکن اکثریت کا نیا ایوان صدر کے لیے مشکلات کھڑی کرسکے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس طلبی کا اختیار ہے۔ وہ بہت سی تحقیقات کروا سکتے ہیں۔ وہ بہت سی سماعتیں کروا سکتے ہیں ۔ وہ صدر اوباما کے مشیراور کابینہ کے ارکان کو طلب کرسکتے ہیں ۔ ان سے پوچھ گچھ کرسکتے ہیں اور انہیں تنقید کانشانہ بنا سکتے ہیں۔
صدر اوباما، تمام امریکیوں کے لیے ، جن میں انتہائی دولت مند شامل ہیں، ٹیکس کٹوتیوں کی توسیع پر متفق ہوکریہ ظاہر کرچکے ہیں کہ وہ ری پبلیکنز کے ساتھ مفاہمت کے لیے تیار ہیں۔
لیکن انہوں نے خود اپنی پارٹی کے ان ارکان پرناراضگی کا اظہار کیا جنہوں نے یہ کہاتھا کہ صدر نے ڈیموکریٹک پارٹی کے اہم اصولوں کو قربان کردیا ہے۔
2011ء میں امکان ہے کہ صدر ایک منقسم کانگریس کے ساتھ کام کرنے کے لیے کوئی درمیانی راہ نکالیں گے۔