نومبر میں امریکہ کے وسط مدتی انتخابات میں ٹی پارٹی ایک اہم سیاسی تحریک کے طور پر ابھری جس کے نتیجے میں ڈیموکریٹک پارٹی نے ایوان نمایندگان میں اپنی اکثریت کھو دی اوراب ری پبلیکن پارٹی کا ایوان نمائندگان پر کنٹرول ہے۔ ٹی پارٹی کی حمایت سے کامیاب ہونے والے ری پبلیکن پارٹی کے ایک نئے رکن ایلن ویسٹ ہیں۔ ووٹرز ان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ حکومت کے اخراجات میں کمی کرنے کے لئے کام کریں گے ۔
ایوان نمائندگان میں ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے دو نئےسیاہ فام اراکین منتخب ہوئے ہیں جن میں سے ایک ہیں فلوریڈا سےتعلق رکھنے والے ایلن ویسٹ ہیں۔وہ ایک ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں۔ ان کا کہناہے کہ وہ طرز حکومت میں تبدیلی کے لئے بھر پور کوشش کریں گے۔
ان کا کہناہے کہ امریکی عوام آئندہ تین چار ماہ میں تبدیلی کے مثبت آثار دیکھنے کے خواہشمند ہیں اور اگر انہیں ایسا دکھائی نہ دیا اور حالات پہلے جیسے ہی رہے تو وہ ہمیں اٹھا کر باہر پھینک دیں گے۔
بدھ کی صج ویسٹ نے کانگریس میں بلیک کاکسس کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ ری پبلیکن پارٹی کے دوسرے سیاح فام رکن ٹم سکاٹ اس گروپ میں شامل نہیں۔ گروپ میں زیادہ تر اراکین ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جب ہم ان بنیادی چیزوںٕ کی بات کرتے ہیں جو سیاح فام امریکیوں کو ممتاز بناتی ہیں۔ جیسے ایمان، خاندان، خود انحصاری اور کاروباری رجحان ۔ ا س کا مطلب لوگوں کو بااختیار بنانا ہے نہ کہ اس کے بر عکس۔
ویسٹ صدر براک اوباما پر شدید تنقید کرتے آئے ہیں ۔ ان میں صدر اوباما کا فوج میں ہم جنس پرستوں پر سے پابندی اٹھانے کی حمایت بھی شامل ہے۔ وہ اسے کچھ خاص مفاد پرست گروہوں کو انعام دینا قرار دیتے ہیں۔ ان کے حامی ان سے خوش ہیں اور نئی کانگریس کے اجلاس کے موقع پر ان کے تقریباً ایک سو حامیوں نے افتتاحی اجلاس کو اپنی ٹی وی سکرینوں پر دیکھا۔
ان کی ایک حامی کا کہناہے کہ میرا تعلق ایک فوجی خاندان سے ہے اور ریٹائرڈ لیفٹنٹ کرنل ویسٹ کےخیالات ان اقدار کی عکاسی کرتے ہیں جن کی میں حمایت کرتی ہوں اور جو اس ملک کو اعزا ز بخشتے ہیں۔
سابقہ سپیکر نینسی پلوسی نے بھی امریکی کانگرس کے سیاہ فام اراکین سے خطاب کیا ۔ انہوں نے اپنی پارٹی کے اراکین پر زور دیا کہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے ایجنڈے پر کام جاری رکھیں۔ ان کاکہناتھا کہ ہم امریکی عوام کے مسائل جیسے صحت عامہ، رہائش ، روزگار اورتعلیم سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لئے مشترکہ مقاصد تلاش کرتے ہیں ۔ مگر جہاں ہم مشترک مقاصد نہیں ڈھونڈ سکتے وہاں ہمیں اپنے مقاصد پر ڈٹ جانا ہوگا ۔