برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے ایک اعلیٰ مشیر نے مغربی طاقتوں سے کہا ہے کہ داعش کے شدت پسند گروہ کے انتہا پسندوں کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔ امریکہ میں شائع ہونے والی اپنی حالیہ کتاب میں وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ حکومتوں کو تقریباً ہمیشہ ہی دہشت گردوں سے بات کرنی پڑتی ہے۔
جوناتھن پوویل کی کتاب ’ٹررسٹس ایٹ دی ٹیبل: وائی نیگو شئیٹنگ از دی اونلی وے ٹو پیس‘ کے شائع ہونے کے بعد، بحث چھڑ گئی ہے آیا کیونکر دولت اسلامیہ کے لڑاکوں سے مذاکرات کیے جائیں، اور یہ کہ، آخر اُن کے ساتھ کس معاملے پر بات ہو سکتی ہے۔
اپنی رپورٹ میں ’وائس آف امریکہ‘ کے نامہ نگار، جامی ڈٹمر بتاتے ہیں کہ مسٹر بلیئر کے سابق مشیر یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی بھی اس دہشت گرد گروہ کے عالمی خلافت سے متعلق مطالبے پر مذاکرات نہیں کر سکتا، لیکن انتہا پسند کسی کم سطحی معاملے پر رضامند ہوسکتے ہیں۔
اپنی کتاب میں پوویل کہتے ہیں کہ ’بات جب دہشت گردی کی ہو تو حکومتیں مشترکہ بھول کی شکار ہو جاتی ہیں‘۔
بقول اُن کے، ’ہر بار جب ہمارا ٹاکرا کسی نئے دہشت گرد گروپ سے ہوتا ہے، ہم بات یہاں سے شروع کرتے ہیں کہ اُن کے ساتھ ہم کبھی گفتگو نہیں کریں گے۔ جیسا کہ (سابق امریکی نائب صدر) ڈک چینی نے کہا تھا، ہم کسی نقصان رساں سے مذاکرات نہیں کیا کرتے؛ ہم اُسے شکست دیتے ہیں‘۔
مصنف کہتے ہیں کہ ’حقیقت میں، تاریخ یہ بتاتی ہے کہ عام طور پر ہم اُنھیں (دہشت گردوں کو) شکست نہیں دیتے، جب کہ ہمیں تقریباً ہمیشہ اُن سے بات کرنی پڑتی ہے‘۔
پوول کے مخالفین پوچھتے ہیں، جب معاملہ داعش کا ہو، تو مغرب بات کرنے پر تو رضامند ہوسکتا ہے،لیکن کسی عالمی خلافت پر نہیں۔ لیکن شاید یہ سرحدیں اُسی خطے تک محدود سمجھی جائیں، جس پر دولت اسلامیہ کا گروہ تسلط جمائے ہوئے ہے؟
کیا مغرب خلافت کے دعویدار بھانت بھانت کے لڑاکا دھڑوں کو جائز تسلیم کرنے کے لیے تیار ہو سکے گا۔ موجودہ اتحادیوں کو دغا دے کر؛ کیا لاکھوں افراد کو بپھرے ہوئے کٹر لوگوں کی دہشت گردی کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا چاہیئے، جیسا کہ کبھی نیول چمبرلین نے جنگ سے بچنے کے لیے نازیوں کو خوش کرنے کے لیے کیا تھا؟
پوول کی دلیل کو ’نیوزویک‘ رسالے نے سرسری توثیق دی ہے، جس نے اس ماہ کے اوائل میں 58 برس کے پوول کا انٹرویو چھاپہ جس کا عنوان تھا: ’پیاری داعش، آئیے بات کرتے ہیں‘۔ تاہم، اُس نے کہا ہےکہ پوول کی بصیرت کبھی بھی اتنی برمحل نہیں تھی۔‘
ناقدین کہتے ہیں کہ پوول کا اِس بات پر زور کہ حکومتیں ہمیشہ دہشت گردوں سے بات کرتی ہیں، جن میں داعش کے شدت پسند گروپ کے جہادی بھی شامل ہیں، ایسی بات ہے جو دولت اسلامیہ کے رہنماؤں کے کانوں کو بھلی لگے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس گروہ کے ساتھ بات کرنے کا مقصد یہ ہوگا کہ اُسے جائز خیال کیا جائے، ایسی بات ہے جسے حاصل کرنے کے لیے گروپ کی لیڈرشپ بے چین دکھائی دیتی ہے۔
پچھلے سال جب ابو بکر بغدادی نے شام اور عراق پر پھیلی ہوئی خلافت کا اعلان کیا تھا، اس دہشت گرد گروہ کا انگریزی زبان میں آن لائن رسالا، ’دبیق‘ متواتر اس دلیل کا پرچار کرتا رہا ہے کہ مغرب کی جنگ کی حکمت علمی بیکار ہے اور آخر کار اُسے بات کرنی پڑے گی۔
اس دہشت گرد گروپ نے اپنے سماجی میڈیا ذرائع پر خلافت کے اپنے نظریے کو ایک عام ریاست کی عمل داری کے طور پر پیش کیا ہے، جس میں سکہ جاری کیا جائے گا اور اسکول پھر سے کھل جانے کے علاوہ ایک طبی اسکول قائم کرنے اور خودساختہ داعش کا اپنا فائیو اسٹار ہوٹل قائم کرنے کا اعلان شامل ہے۔