سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پیراگون ہاؤسنگ کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) سے متعلق ریمارکس پر پاکستان کے سیاسی اور قانونی حلقوں میں بحث کا سلسلہ جاری ہے۔
اپوزیشن جماعتیں اس فیصلے کو نیب کے خلاف چارج شیٹ قرار دے رہی ہیں۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق اور اُن کے بھائی سلمان رفیق کو لاہور کی نجی ہاؤسنگ اسکیم پیراگون میں مبینہ گھپلوں کے الزامات پر ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں ملک میں احتساب کے قوانین پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سیاست دانوں کی وفاداریوں کو تبدیل کرنے اور سیاسی جماعتوں میں ’’توڑ پھوڑ‘‘ اور ’’تحلیل‘‘ کرنے کے آلے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس کیس میں نیب کی مداخلت پر بڑے سوالات ہیں۔ بظاہر خواجہ برادران کا جرم ایسا نہیں کہ نیب کا کیس بنتا ہو۔
عدالت نے تفصیلی فیصلے میں کیس کو انسانیت کی تذلیل کی بدترین مثال قرار دیا تھا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ نیب نہ تو ہاؤسنگ اسکیم سے خواجہ برادران کا تعلق ثابت کرسکا اور نہ ہی یہ واضح ہو سکا کہ نیب نے اس کیس میں مداخلت کیوں کی؟
ملک کی بڑی اپوزیشن جماعتیں نیب سے متعلق قانون سازی پر زور دے رہی ہیں جب کہ خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نیب کو ختم کر کے پارلیمان کو احتساب کا نیا ادارہ تشکیل دینا چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ اور تمام سیاسی جماعتوں کو قانون سازی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
منگل کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں خواجہ آصف، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اور خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے سے ثابت ہو گیا کہ نیب کو سیاسی مقاصد اور اپوزیشن کو دبانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ خواجہ برادران کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ نیب اور نام نہاد احتساب پر فردِ جرم ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی جسٹس مقبول باقر کا فیصلہ اپنی ٹوئٹ میں شیئر کیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ نیب کو سیاسی انجینئرنگ اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر کے ایک سلیکٹڈ وزیر اعظم کو قوم پر مسلط کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے تاریخی فیصلوں سے بتدریج نہ صرف عدلیہ کی رٹ قائم ہوتی ہے بلکہ یہ بقا اور آزادی کی بھی ضمانت ہیں۔
بعض ناقدین نے نیب قانون میں ترامیم اور چند نے قانون ختم کرنے کی ضروت پر زور دیا ہے۔ نیب قوانین کے ناقد یہ خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف نے نیب قانون میں اصلاحات نہ کیں تو جب وہ اپوزیشن میں ہوں گے تو اس وقت کی حکومت ان کے خلاف یہ قانون استعمال کرے گی۔
سابق ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق نے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا وہ آئین کے آرٹیکل 198 کے تحت ہے۔ تفصیلی فیصلے کے پیرا گراف نمبر 65، 66، 67، 68 میں معزز ججز نے جو لکھا ہے وہ نیب کے خلاف چارج شیٹ ہے۔
عمران شفیق کے بقول پہلے نیب پر یہ تنقید ہوتی تھی کہ وہ یکطرفہ احتساب کرتی ہے۔ یا یہ مطالبہ ہوتا تھا کہ پراسیکیوشن ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن اب یہ مطالبات زور پکڑ رہے ہیں کہ چیئرمین نیب، پراسیکیوٹر نیب اور تمام بڑے عہدے دار خود ہی نیب چھوڑ کر چلے جائیں کیوں کہ اب اس کے قیام کا کوئی اخلاقی جواز نہیں رہا۔
اُن کے بقول ملک کی سب سے بڑی عدالت نے نیب کے قیام پر سوالات اُٹھا دیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ یہ ادارہ آمر کے دور میں لوگوں کو دبانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ عمران شفیق کے بقول ججز نے یہ بھی لکھا ہے کہ ادارہ پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کر رہا ہے۔
تجریہ کار ریما عمر نے کہا کہ نیب قانون میں ترمیم کے بجائے یہ قانون ہی ختم ہونا چاہیے۔ احتساب کے عمل میں دلچسپی رکھنے والوں کو پیراگون سٹی کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھنا چاہیے۔ ججوں نے بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ کس طرح اس ملک میں کرپشن کے نام پر سیاسی جوڑ توڑ ہوتا رہا ہے۔
ریما عمر کے بقول سیاست دانوں کو ہراساں کرنے اور ان کی سیاسی وفاداریاں بدلنے ک قوانین استعمال ہوئے ہیں اورکس طرح نیب جانبدارانہ رویہ رکھتا ہے، اس ملک میں احتساب سب چاہتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں کو شک کی بنیاد پر مہینوں حراست میں رکھا جائے۔
ریما عمر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے پیراگون کیس پر سوال کیا کہ اس کیس میں شواہد اتنے کمزور ہیں اس کے باوجود نیب نے یہ کیس کیوں اٹھایا ہے، ججوں نے کہا کہ سزا یا ٹرائل سے پہلے گرفتاری ایک سزا ہوتی ہے، اس لیے جب تک ثبوت نہ ہوں آپ لوگوں کو حراست میں نہیں رکھ سکتے۔
نیب کا اپنے اُوپر لگنے والے الزامات پر یہ موقف رہا ہے کہ نیب سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر میرٹ پر کارروائی کرتا ہے۔ لہذٰا یہ تاثر درست نہیں کہ صرف اپوزیشن جماعتوں کے خلاف ہی کیسز قائم کیے جاتے ہیں۔