سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک میں بدعنوانی کے مقدمات جلد نمٹانے کے لیے حکومت کو کم از کم 120 نئی احتساب عدالتیں قائم کرنے کی تجویز دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر پیشرفت رپورٹ طلب کر لی ہے۔
سپریم کورٹ نے نیب عدالتوں سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران بدھ کو یہ تجویز دی۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ملک کی پانچ احتساب عدالتوں میں ججوں اور دیگر عملے کی خالی اسامیوں پر ایک ہفتے کے اندر تعیناتیاں کی جائیں۔
عدالت نے چیئرمین نیب سے کہا ہے کہ وہ زیرالتوا نیب ریفرنسز تین ماہ میں نمٹانے کے لیے تجاویز بھی عدالت میں جمع کرائیں۔
عدالتی ریکارڈ کے مطابق اس وقت نیب عدالتوں میں 1226 کیسز زیر التوا ہیں۔
پاکستان میں قانونی اور سیاسی حلقے احتساب عدالتوں میں زیر التوا مقدمات میں تاخیر پر سوال اُٹھاتے رہتے ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا فائدہ اکثر ملزمان کو ہوتا ہے۔
نیب کے سابق پراسیکیوٹر راجہ عامر عباس کہتے ہیں کہ جب نیب کے کیسز طویل عرصے تک پڑے رہتے ہیں تو گواہان کی عدم موجودگی کی وجہ سے اکثر کیسز میں ملزمان کو فائدہ پہنچتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں رینٹل پاور کیسز میں دیکھنے میں آیا کہ کئی شواہد ضائع ہوئے اور بعض گواہان اس کیس میں کئی سال کی پیشیوں کے باعث گواہی دینے نہیں آئے جس کا فائدہ ملزم کو پہنچا۔
خیال رہے کہ چند روز قبل احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو رینٹل پاور کیس میں بری کر دیا تھا۔
راجہ عامر عباس نے نئی عدالتوں کے قیام کو مثبت قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ نئی عدالتوں کے قیام سے ججز پر دباؤ میں کمی آئے گی اور ہر جج کے پاس 10 سے 20 کیس ہوں گے جن کا وہ جلد فیصلہ کر سکیں گے۔
اُن کے بقول اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ بڑے کیسز میں عوام اور میڈیا کی دلچسپی اور نیب کی اپنی ترجیح کی وجہ سے ججز صرف ان کیسز کو دیکھتے ہیں اور دیگر کیسز کئی کئی سال تک چلتے رہتے ہیں، اس کے لیے نئے ججز کی تعیناتی ضروری ہے۔
سب کیسز اسلام آباد کی عدالت میں کیوں؟
قانون کے مطابق نیب ریفرنسز کا فیصلہ 30 دن کے اندر اندر ہو جانا چاہیے لیکن ملک میں موجود 25 احتساب عدالتوں میں سے 20 اس وقت کام کر رہی ہیں۔
سابق پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق کہتے ہیں کہ اس وقت ملک میں عدالتوں کی کمی نہیں ہے لیکن کراچی، لاہور یا کسی اور جگہ کے کیسز بھی اسلام آباد کی احتساب عدالت میں منتقل کیے جا رہے ہیں جس سے ججز پر دباؤ بڑھتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ راولپنڈی کی احتساب عدالت میں گزشتہ تین چار سالوں کے دوران کوئی بڑا کیس نہیں لگا سب کیسز اسلام آباد کی احتساب عدالت میں بھجوائے جاتے ہیں۔ اُن کے بقول بعض کیسز میں تو سپریم کورٹ کی طرف سے تحریری ہدایت دی گئی کہ انہیں اسلام آباد کی احتساب عدالت دیکھے۔
عمران شفیق کہتے ہیں کہ سابق صدر آصف زرداری کے خلاف کیسز بھی کراچی سے اسلام آباد منتقل کردیے گئے اس سے اس کیس میں شامل گواہان، ملزمان، افسران سب کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اُن کے بقول اس وقت مختلف ریجنز میں عدالتیں موجود ہیں ججز کام کررہے ہیں لیکن ان کو کیسز نہیں دیے جا رہے۔ لہذا عدالتوں کی تعداد میں اضافہ کے بجائے اگر ججز پر اعتماد کرتے ہوئے کیسز کو ریجنز میں تقسیم کیا جائے تو اس سے انصاف کی فراہمی کا عمل تیز ہو سکتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ جن ریجنز میں کیسز زیادہ ہیں وہاں مزید جج تعینات کر دیے جائیں تو اس سے کیسز جلد نمٹائے جا سکتے ہیں۔
'زیرالتوا مقدمات نمٹانے میں ایک صدی لگ جائے گی'
نیب کے ان کیسز کے حوالے سے چیف جسٹس گلزار احمد نے حکم دیا کہ حکومت سات روز کے اندر پانچ احتساب عدالتوں میں ججوں اور دیگر عملے کی تقرری کو یقینی بنائے ورنہ لاپرواہی کے ذمہ دار افسروں کے خلاف سخت ایکشن لیں گے۔
عدالتی نوٹس کے باوجود اٹارنی جنرل، پراسیکیوٹر جنرل نیب اور وفاقی سیکرٹری قانون عدالت میں موجود نہیں تھے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ نیب کا ادارہ درست طور پر نہیں چل رہا ہے، مقدمے درج ہو رہے ہیں لیکن فیصلے نہیں ہو رہے۔ 20، 20 سال سے احتساب عدالتوں میں ریفرنسز زیر التوا ہیں ان کے فیصلے کیوں نہیں ہو رہے ہیں؟ کیوں نہ نیب عدالتیں بند کرتے ہوئے نیب آرڈیننس کو ہی غیرآئینی قراردے دیا جائے؟
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق تو نیب ریفرنس کا فیصلہ 30 دن کے اندر اندر ہوجانا چاہیے لیکن لگتا ہے کہ نیب کے ملک بھر میں زیر التوا 1226 ریفرنسز کے فیصلے ہونے میں ایک صدی لگ جائے گی۔
تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟
تجزیہ کار سلمان عابد کہتے ہیں کہ نیب کے سامنے سب سے اہم سوال انصاف کی فراہمی کا ہے۔ ماضی میں جب جب تیز تر انصاف کی فراہمی کے لیے عدالتیں قائم ہوئیں ان پر شکوک کا اظہار کیا گیا کہ تیز انصاف کی خواہش کے ساتھ ناانصافی ہونے کے امکانات زیادہ ہوئے۔ اب بارہ سو کیسز کے لیے ایک سو بیس عدالتیں قائم کی جا رہی ہیں لیکن اس میں دیکھنا یہ ضروری ہے کہ تین ماہ میں صرف کیس کا فیصلہ کرنے کے لیے کسی سے ناانصافی نہ ہو۔ باقی ان عدالتوں سے جہاں تک نیب عدالتوں پر لوگوں کے اعتماد کا سوال ہے تو میرے خیال میں اس پر کوئی فرق نہین پڑے گا کیونکہ احتساب عدالتوں پر سیاسی اور حکمران جماعت کے اثر و رسوخ کے بارے میں پہلے بھی کہا جاتا ہے اور اس میں عدالتوں کی تعداد زیادہ ہونے سے اس کے فیصلوں و پذیرائی حاصل نہیں ہو سکے گی۔