پاکستان کے سابق صدر اور حزبِ اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری طویل عرصے بعد سیاسی محاذ میں دوبارہ سرگرم ہو گئے ہیں۔ اپنے ایک بیان میں سابق صدر نے حکومت پر کڑی تنقید کی ہے۔
سابق صدر آصف زرداری ایسے وقت میں سیاسی منظر نامے میں متحرک ہوئے ہیں جب حال ہی میں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) نے حکمراں اتحاد سے الگ ہو گئی ہے اور حکومتی رہنماؤں کے مابین اختلافات بھی سامنے آ رہے ہیں۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل سے ٹیلی فون پر گفتگو کر کے اُنہیں اپوزیشن اتحاد میں شمولیت کی دعوت بھی دی ہے۔
سیاسی جوڑ توڑ اور مفاہمت کے بادشاہ سمجھے جانے والے آصف زرداری کے سیاست میں دوبارہ فعال ہونے کو پاکستان کے سیاسی اور صحافتی حلقے اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔
سینئر تجزیہ کار رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ آصف زرداری حکمراں اتحاد میں پڑنے والی دراڑ اور حکومت کے اندر اختلافات سے سیاسی فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاست میں مخالف کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا۔
رسول بخش رئیس نے کہا کہ اتحادی حکومت سے علیحدہ ہو رہے ہیں تو بعض علیحدہ ہونے کی دھمکیاں دے رہے ہیں ایسے میں آصف زرداری نے ماضی میں بھی اپنی مفاہمتی سیاست سے فائدہ اٹھایا اور اب بھی حکومت کو کمزور کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔
آصف زرداری نے پیپلزپارٹی پنجاب صدر قمر زمان کائرہ اور سیکریٹری جنرل چوہدری منظور سے بھی ٹیلی فون پر گفتگو کی اور پنجاب میں پارٹی کی تنظیم سازی پر مشاورت کی۔
خیال رہے کہ احتساب عدالت میں 26 جون کو پارک لین تحقیقات اور سات جولائی کو منی لانڈرنگ کیس میں آصف زرداری پر فرد جرم عائد کیے جانے کا امکان ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری منظور نے کہا کہ آصف زرداری کے خلاف قائم مقدمات میں فرد جرم عائد ہونے کا تعلق اُن کا سیاست میں متحرک ہونے سے نہیں ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ فرد جرم عائد ہونا ایک معمول کی بات ہے اور پیپلزپارٹی کی قیادت اور کارکن ماضی میں بھی ایسے جھوٹے مقدموں کا سامنا کرتے رہے ہیں۔
چوہدری منظور نے کہا کہ آصف زرداری نے ملک کو درپیش سنجیدہ نوعیت کے معاملات یعنی کرونا وائرس، ٹڈی دل اور بلوچستان کے مسئلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
چوہدری منظور کہتے ہیں کہ دو سال قبل آصف زرداری نے کہا تھا کہ موجودہ حکومت اپنے وزن سے گر جائے گی اور آج حکومت اپنی ہی وزن سے گر رہی ہے۔
گزشتہ دنوں وفاقی وزیر فواد چوہدری نے وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ وفاقی وزرا اور پارٹی رہنماؤں کے باہمی اختلافات ہیں جس کے باعث حکومتی کارکردگی متاثر ہورہی ہے۔
بلاول بھٹو کے ترجمان سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے بھی ایک بیان میں کہا کہ وفاقی حکومت کی صفوں میں بغاوت شروع ہو چکی ہے اور بجٹ کی منظوری سے قبل حکومتی صفوں میں بغاوت حکومت گرنے کی نشاندہی ہے۔
'صحت سے متعلق افواہیں پی ٹی آئی نے پھیلائیں'
گزشتہ دنوں ذرائع ابلاغ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر سابق صدر آصف زرداری کی تشویش ناک حالت اور صحت سے متعلق کافی خبریں گردش کرتی رہی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو سے وائس آف امریکہ نے جب ان کے والد کی صحت سے متعلق چلنے والی خبروں پر بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری کی صحت حکومتی قید میں خاصی تشویش ناک تھی۔ لیکن اب وہ بہتر ہیں اور کرونا وائرس کی وبا کے باعث زیادہ احتیاط کر رہے ہیں۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ آصف زرداری کی صحت سے متعلق افواہیں تحریک انصاف پھیلا رہی ہے۔
'پارٹی کے اہم فیصلے اب بھی آصف زرداری کر رہے ہیں'
رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ گزشتہ دنوں آصف علی زرداری کی صحت سے متعلق آنے والی خبریں نہ خوش کن تھیں نہ حیران کن اور طویل عرصے سے علالت کے سبب یہ سمجھا جارہا تھا کہ وہ اب سیاست میں فعال نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے کہا کہ سابق صدر کے حالیہ بیانات اور سیاسی رہنماؤں سے رابطوں کے نتیجے میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ وہ صحت مند ہیں۔ سیاست میں دلچسپی بھی ہے اور حالات کا جائزہ لیتے ہوئے پیپلز پارٹی کی قیادت بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔
چوہدری منظور کہتے ہیں یہ تاثر درست نہیں کہ آصف زرداری حکومت کی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھانے کے لیے دوبارہ متحرک ہوئے ہیں۔ اُن کے بقول سابق صدر کی صحت بہتر نہیں تھی اب وہ بہتر ہیں تو پارٹی رہنماؤں سے رابطے کر رہے ہیں۔
چوہدری منظور کہتے ہیں کہ آصف علی زرداری عملی سیاست میں فعال نہیں ہو رہے کیوں کہ اُن کا پارٹی میں کردار مشاورتی ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو ہی پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں۔
آصف زرداری کے حالیہ بیانات پر حکومتی وزرا کا ردعمل بھی سامنے آتا رہا ہے۔ حکومتی وزرا کا یہ موقف رہا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کا اب ملکی سیاست میں کوئی کردار نہیں ہے۔
آصف زرداری پر مقدمات کیا ہیں؟
نیب کا یہ الزام ہے کہ آصف زرداری نے جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے تین ارب 77 کروڑ روپے کی کرپشن کی ہے۔
اس مقدمے میں گزشتہ سال جون میں سابق صدر آصف علی زرداری کو گرفتار بھی کیا تھا۔ چھ ماہ تک جیل میں رہنے کے بعد اُنہیں گزشتہ سال دسمبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے طبی بنیادوں پر ضمانت دی تھی۔
نیب کا یہ بھی الزام ہے کہ اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے سی ڈی اے نے حکومت کی زمین غیر قانونی طور پر پارک لین نامی کمپنی کو منتقل کی جو آصف زرداری کے نام پر ہے۔