رسائی کے لنکس

بلوچستان: مون سون بارشوں سے مختلف علاقوں میں سیلابی صورتِ حال، آٹھ افراد ہلاک


سیلاب سے سب زیادہ نقصان ضلع کچھی کے علاقے بولان میں ہوا۔ جہاں دو مقامات پر پل جب کہ کئی جگہ سے سڑک پانی میں بہہ گئی ہیں۔ (فائل فوٹو)
سیلاب سے سب زیادہ نقصان ضلع کچھی کے علاقے بولان میں ہوا۔ جہاں دو مقامات پر پل جب کہ کئی جگہ سے سڑک پانی میں بہہ گئی ہیں۔ (فائل فوٹو)

بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مون سون کی بارشوں کے باعث سیلابی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ پراونشل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق بلوچستان میں بارش اور سیلاب سے آٹھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

پی ڈی ایم کے کنٹرول روم کے حکام نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہفتے کو تیز بارشوں کے باعث سیلابی صورتِ حال پیدا ہو گئی تھی جس کے باعث بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقوں زیدی اور وڈھ میں دو افراد پانی میں بہہ کر ہلاک ہوئے۔

کنٹرول روم کے اعداد و شمار کے مطابق ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کے علاقے میں بھی تین افراد پانی میں بہہ کر ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ اتوار کے روز ضلع کچھی کے علاقے میں سیلاب میں بہہ جانے والے مزید تین افراد کی لاشیں ملی ہیں۔

رپورٹس کے مطابق سیلاب سے سب زیادہ نقصان ضلع کچھی کے علاقے بولان میں ہوا۔ جہاں دو مقامات پر پل جب کہ کئی جگہ سے سڑک پانی میں بہہ گئی ہے جس سے بلوچستان اور سندھ کے درمیان زمینی راستہ منقطع ہو گیا ہے۔

ادھر خضدار کے سیاحتی مقام مولہ چٹوک میں 80 سے 100 کے قریب پھنسے سیاحوں کو تاحال ریسکیو نہیں کیا جا سکا۔ حکام کے مطابق اس حوالے سے مشاورت اور اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

پی ڈی ایم اے کے کنٹرول روم کے مطابق ڈیرہ بگٹی میں سیلاب سے متعدد گھر اور مال مویشی بہہ گئے ہیں۔

ضلع قلات کے علاقے گزگ میں مقامی افراد کے مطابق چھ افراد سیلابی ندی میں پھنس گئے تھے۔ مقامی حکام کو ان کو ریسکیو کرنے کے لیے مطلع کر دیا گیا تھا۔

حکومتی اقدامات

بلوچستان میں سیلابی صورتِ حال کے باعث محکمۂ صحت نے تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔

بلوچستان کی پارلیمانی سیکرٹری برائے صحت ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر کے تمام ڈویژنل اور ضلعی اسپتالوں میں ڈاکٹرز اور طبی عملے کو موجود رہنے کی ہدایت کی گئی یے تاکہ کسی بھی ممکنہ صورتِ حال سے بر وقت نمٹا جا سکے۔

ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی نے میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں مون سون بارشوں سے سیلابی صورتِ حال کا سامنا ہے۔

لیاقت شاہوانی کا کہنا تھا کہ متعدد ڈیمز بھی گنجائش سے زیادہ بھر چکے ہیں۔ پی ڈی ایم اے پہلے ہی ہائی الرٹ پر ہے جب کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے متعلقہ محکموں کو مشینری استعمال کرکے امدادی کارروائیوں کی ہدایت کی ہے۔

ترجمان کے مطابق متاثرہ علاقوں میں خیمے اور دیگر سامان پہنچایا جا رہا ہے جب کہ گوادر، خضدار اور بولان میں رابطہ سڑکوں کی بحالی کا کام جاری ہے۔

بہہ جانے والی سڑکوں کی بحالی کا کام جاری

ادھر نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے بھی قومی شاہراہوں کی بحالی کا کام شروع کر دیا ہے۔

گزشتہ روز سیلابی ریلے میں بہہ جانے والی کوسٹل ہائی وے کے متاثرہ حصے کی مرمت کرکے ٹریفک بحال کر دی گئی۔ تاہم کراچی اور مکران کے درمیان تاحال زمینی رابطہ بحال نہیں ہو سکا ہے۔

گیس کی فراہمی معطل

دوسری جانب شاہراہ بولان پر سیلابی ریلوں کے باعث قریب سے گزرنے والی گیس پائپ لائن کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ جس سے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت مستونگ، قلات، پشین اور زیارت کو گیس کی سپلائی معطل ہو گئی ہے۔

سوئی سدرن گیس کمپنی کے ترجمان کے مطابق گیس کی بحالی کے لیے جلد اقدامات شروع کر دیے جائیں گے۔

کوئٹہ سے سبی تک ریل سروس

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کو صوبہ سندھ سے ملانے والی شاہراہ بولان کی بندش کے باعث کئی مسافر پھنس گئے ہیں جس کے بعد وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال کی خصوصی ہدایت پر وزارتِ ریلوے کے تعاون سے کوئٹہ سے سبی تک ریلوے سروس شروع کی جا رہی ہے۔

ریلوے حکام کے مطابق خصوصی ٹرین مسافروں کو لے کر اتوار کی شام چار بجے سبی کے لیے روانہ ہوئی جو سبی سے مسافروں کو لے کر واپس آئے گی۔

کراچی میں مون سون کا چوتھا اسپیل کمزور پڑ گیا

کراچی میں تین دن تک موسلادھار بارش برسانے والا سسٹم اب بلوچستان کی جانب جاچکا ہے لیکن یہ سسٹم اب کمزور پڑ گیا ہے، یہ کہنا ہے ڈائریکٹر میٹرولوجسٹ عبدالقیوم بھٹو کا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جولائی سے ستمبر کے آخری ہفتے تک مون سون کا سیزن ہوتا ہے اور اگست سے ستمبر تک ملک بھر سمیت سندھ اور کراچی کو تین سے پانچ مزید ایسے اسپیل کا سامنا رہے گا۔

کراچی میں بارشوں کے حوالے سے محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی تھی کہ یہ سسٹم ایک سو سے ایک سو تیس ملی میٹر بارش برسا سکتا ہے جو سو فیصد درست ثابت ہوئیں۔ کچھ علاقوں سے 110 اور 98 ملی میٹر بارشیں برسنے کی رپورٹ بھی محکمہ موسمیات کو موصول ہوئیں لیکن یہ کوئی ریکارڈ توڑ بارشیں نہیں ہیں بلکہ معمول کی مون سون بارش ہے۔

ڈائریکٹر میٹ کے مطابق کراچی میں 1977 میں 24 گھنٹوں میں برسنے والی بارش کا ریکارڈ 207 ملی میٹر کا ہے جو ابھی تک قائم ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بارش کے لئے کراچی کے مختلف 13 اسٹیشنز سے محکمہ موسمیات کو ریکارڈ موصول ہوتے ہیں۔ ان اسٹیشن پر بارش کی پیمائش کرنے کے لئے (رین گیجز) آلات لگائے گئے ہیں۔ لیکن محکمہ موسمیات تین اسٹیشن جو سب سے پرانے ہیں ان کے ڈیٹا کو اپنے ریکارڈ کا حصہ بناتا ہے جس میں ایم او ایس (میٹرولوجیکل آفس) اولڈ ائیر پورٹ، فیصل بیس اور مسرور بیس شامل ہے۔ یہاں پر ہونے والی بارش کو ہی کراچی کے ریکارڈ کا حصہ بنایا جاتا ہے۔

ڈائریکٹر میٹ عبدالقیوم بھٹو کے مطابق اگست میں ایک اور بارش برسانے والے سسٹم کو بنتا دیکھا جا رہا ہے، تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اس کا اثر کراچی پر پڑے گا یا نہیں۔

محکمہ موسمیات کے تین دن کی بارش کے ریکارڈ کے مطابق کراچی کے علاقے فیصل بیس پر اب تک سب سے زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی ہے جو کہ 171 ملی میٹر ہے۔ دوسرے نمبر پر سرجانی ہے جہاں 154.6 ملی میٹر، گلشن حدید میں 148.5 ملی میٹر، مسرور بیس پر 139، صدر 141، لانڈھی اور یونیورسٹی روڈ 104, ایم او ایس اولڈ ائیر پورٹ ایریا میں 131، ناظم آباد میں 95، کیماڑی میں 86.5، نارتھ کراچی میں 84.3، جب کہ سعدی ٹاون میں 61.4 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔

محکمہ موسمیات کے مطابق اگلے چوبیس گھنٹوں میں کراچی کا موسم ابر آلود رہے گا جس میں بوندا باندی اور ہلکی بارش کا امکان ہے۔

تاہم مون سون کے اس چوتھے اسپیل کے سبب کراچی کے کئی علاقوں میں بارش کا پانی جمع ہونے سے نہ صرف معمولات زندگی متاثر ہوئے بلکہ شہریوں کو غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا بھی سامنا رہا۔ جبکہ بارش کے شروع ہونے سے قابل ہی کراچی کے تین بڑے نالوں جن میں گجر نالہ سرفہرست رہا اسے سندھ حکومت نے ایف ڈبلیو او (فرنٹئیر ورکس آرگنائزیشن) اور این ڈی ایم اے (نیشنل ڈیزاسٹاٹر مینجمنٹ اتھارٹی) کے تعاون سے صاف کرنے کا کام شروع کر دیا تھا۔

XS
SM
MD
LG