رسائی کے لنکس

کراچی میں بجلی کا بحران حل کیوں نہیں ہوتا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

"مجھے بارشیں پسند ہیں لیکن اب ہلکی سی پھوار سے بھی خوف آتا ہے۔ تین برس قبل بارش میں نہاتے بچوں نے پکوڑے کھانے کی فرمائش کی، گھر میں بیسن نہیں تھا، شوہر وہی لینے گئے تھے اور پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئے۔"

یہ کہنا تھا لیاقت آباد کی رہائشی تحریم فاطمہ کا جو محض 24 سال کی عمر میں ہی بیوہ ہو گئی تھیں۔ ان کے شوہر پر بجلی کا تار گرا تھا جس سے وہ ہلاک اور بچے زخمی ہو گئے تھے۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں یہ اندوہناک حادثہ جھیلنے والی تحریم فاطمہ تنہا نہیں ہیں۔ گزشتہ برس بھی بجلی کے تار ٹوٹنے یا کھمبوں میں کرنٹ آنے سے 19 ہلاکتیں ہوئی تھیں اور رواں برس بھی ہلکی سی بارش میں بجلی کے تاروں نے چار قیمتی جانیں لے لی ہیں۔

کراچی میں بجلی کی پیداوار، ترسیل اور وصولی کا ذمہ دار ادارہ 'کے-الیکٹرک' ہے جس کے خلاف عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے جس کی وجوہات تو کئی ہیں لیکن غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ، اوور بلنگ اور بارش کے دنوں میں بجلی کے تار گرنے کے واقعات نمایاں ہیں۔

کے۔الیکٹرک کے ڈپٹی جنرل منیجر میڈیا طٰحہ صدیقی کے مطابق تار گرنے کے واقعات میں زیادہ تر تار کے۔الیکٹرک کے نہیں ہوتے بلکہ کھمبوں پر غیر محتاط طریقے سے بندھے بے ترتیب اور بے ہنگم کیبل تار اور غیر قانونی کنڈے کرنٹ کا باعث بنتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے طٰحہ صدیقی نے بتایا کہ کے۔الیکٹرک انتظامیہ نے ایسے حادثات سے بچنے کے لیے کھمبوں سے ٹی وی کیبل اور انٹرنیٹ کے تاروں کو ہٹانے کی مہم شروع کی ہے۔ اس کے علاوہ ارتھنگ اور گراؤنڈ ٹیگنگ کا کام بھی مکمل کر لیا ہے۔

رواں برس اتنی زیادہ لوڈ شیڈنگ کیوں؟

شدید گرمی، چلچلاتی دھوپ اور حبس کے موسم میں گھنٹوں ہونے والی لوڈ شیڈنگ سے کراچی کے شہری بلبلا اُٹھے ہیں۔ گھریلو صارفین اعلانیہ ساڑھے سات گھنٹے روزانہ کی لوڈ شیڈنگ برداشت کر رہے تھے۔ اب غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اس کے علاوہ ہو رہی ہے۔

موجودہ صورتِ حال سے تاجر برادری بھی پریشان ہے۔ سید راشد علی کی نیو کراچی انڈسٹریل ایریا میں تولیہ بنانے کی فیکٹری ہے۔ وہ پہلے ہی جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) میں اضافے اور کرونا وبا کے باعث برآمدات میں کمی جیسے مسائل سے نبرد آزما تھے۔ اب رات 12 بجے سے صبح آٹھ بجے تک کی لوڈ شیڈنگ نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔

اُن کے بقول پوری شفٹ میں کچھ کام نہیں ہو پاتا لیکن مزدوروں کو ادائیگی تو کرنا پڑتی ہے اس طرح پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے۔

کراچی کے مختلف علاقوں میں بجلی کے کھمبوں پر تاروں کی بہتات ہے جو اکثر و بیشتر حادثات کی وجہ بنتے رہتے ہیں۔
کراچی کے مختلف علاقوں میں بجلی کے کھمبوں پر تاروں کی بہتات ہے جو اکثر و بیشتر حادثات کی وجہ بنتے رہتے ہیں۔

طویل لوڈ شیڈنگ پر کے۔الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) مونس علوی کا کہنا ہے کہ موسمِ گرما کے دوران بجلی کی طلب میں اضافہ ہو جاتا ہے جسے پورا کرنے کے لیے پیشگی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ تاہم فیول وقت پر نہ ملنے کی وجہ سے اس وقت 450 سے 500 میگا واٹ بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔

مونس علوی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کے۔الیکٹرک نے فرنس آئل کی خریداری کے لیے متعین طریقہ کار کے تحت پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کو جنوری 2020 میں ایک لاکھ بیس ہزار ٹن فرنس آئل کی درخواست کی تھی۔ مارچ میں ہم نے درکار مقدار کی تصدیق کی اور مئی میں دوبارہ درکار مقدار کی یاد دہانی کرائی تھی۔

ان کے بقول پی ایس او نے دو جون کو ڈی جی پیٹرولیم کو لکھے گئے خط میں اتنی مقدار میں فرنس آئل فراہم کرنے سے معذرت کر لی تھی اور آئل درآمد کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔ تاہم اجازت ملنے اور ٹینڈر کھولتے کھولتے پورا مہینہ بیت گیا۔ اس کے علاوہ کرک سے بھی سپلائی متاثر رہی اور رینیوایبل نیچرل گیس (آر این جی) بھی بروقت نہیں ملی۔

اوور بلنگ اور خراب میٹرز کی شکایت

نارتھ کراچی پاور ہاؤس چورنگی کے نزدیک کے- الیکٹرک کے دفتر کے باہر مشتعل ہجوم اوور بلنگ کی شکایت کے لیے موجود تھا۔ احتجاج کے دوران ہم نے ایک صارف محمد بخش سے بات کی۔

محمد بخش نے کہا کہ "350 یونٹ کے بل کے بجائے 3500 یونٹ کا بل بھیج دیا ہے اور کوئی سننے والا نہیں ہے۔ یہ بلنگ والوں کی معمولی سی غلطی ہے لیکن خمیازہ مجھے بھگتنا پڑ رہا ہے۔"

بجلی کے بلوں میں اضافے سے متعلق ایک فیکٹری مالک عدیل خان نے بتایا کہ صنعتوں میں جتنی زیادہ بجلی استعمال ہوتی ہے اتنے ہی مہنگے سلیبز کے حساب سے بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔

عدیل خان نیو کراچی انڈسٹریل ایریا کی ایسوسی ایشن کے رہنما بھی ہیں۔ ان کے بقول صنعتی شعبے کے لیے بجلی کے نرخ پہلے ہی زیادہ تھے لیکن اس بار سابقہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز بھی لیے جا رہے ہیں اور کئی ٹیکس اس کے علاوہ ہیں۔

عدیل خان کے مطابق سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے دورِ حکومت میں دی گئی سبسڈی بھی بل میں شامل کی جا رہی ہے جس پر عدالت سے حکمِ امتناع لے لیا ہے۔ اگر یہ سبسڈی بھی ادا کرنا پڑی تو فیکٹریوں کو تالے لگ جائیں گے اور مزدوروں کے گھر کا چولہا بجھ جائے گا۔

شہری شکایت کرتے ہیں کہ ان کے بل زیادہ بھیجے جا رہے ہیں۔ تاہم کے الیکٹرک ان الزامات کی نفی کرتی ہے۔
شہری شکایت کرتے ہیں کہ ان کے بل زیادہ بھیجے جا رہے ہیں۔ تاہم کے الیکٹرک ان الزامات کی نفی کرتی ہے۔

زائد بلنگ پر کے۔الیکٹرک ​کے میڈیا منیجر کا کہنا ہے کہ بجلی کے نرخ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) طے کرتی ہے جو تمام ہی ملک میں یکساں ہوتے ہیں بلکہ کراچی میں یہ اب بھی کم ہیں۔

اُن کے بقول فیول ایڈجسٹمنٹ اور دیگر ٹیکسوں پر کے۔الیکٹرک کا اختیار نہیں ہے۔حکومت جو بھی سبسڈی دیتی ہے وہ کے-الیکٹرک کو نہیں بلکہ صارف کو دیتی ہے، اگر فرنس آئل اور آر این جی کی قیمت کم ہو جائے تو پیداواری لاگت بھی کم ہو جائے گی اور عوام کو سستی بجلی مل سکے گی۔

حال ہی میں نیپرا نے کے-الیکٹرک کے لیے 2 روپے 90 پیسے فی یونٹ بڑھانے کی منظوری دی ہے اس کے بعد بھی کے الیکٹرک کے نرخ دیگر شہروں کے برابر تو آجائیں گے لیکن زیادہ نہیں ہوں گے تاہم وزیر اعظم صاحب نے اس نرخ میں اضافے کو بھی موخر کردیا ہے۔

طٰحہ صدیقی کے مطابق 90 فی صد بل نارمل موڈ میں ہوتے ہیں اس لیے زائد یونٹ کا بل بھیجے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کے بقول بجلی کے بل میں گزشتہ برس اور پچھلے ماہ کے استعمال شدہ یونٹس کے تقابل کے ساتھ تمام تر تفصیلات عام فہم انداز میں درج ہوتی ہیں۔اب تو بل پر میٹر کی تصویر بھی آتی ہے جس سے میٹر ریڈر کی غلطی کا امکان بھی ختم ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بل کی پشت پر تمام تر تفصیلات موجود ہوتی ہیں۔ صارف دیکھ سکتے ہیں کہ کتنا کے-الیکٹرک کا بل ہے اور کتنے چارجز حکومت کے کھاتے میں جاتے ہیں۔

میٹر میں گھپلے اور تیز رفتاری سے یونٹ گرنے کی شکایت سے متعلق طٰحہ صدیقی نے کہا کہ یہ میٹرز کے۔الیکٹرک کے بنائے ہوئے نہیں ہیں۔ اُنہیں ٹیسٹنگ کے بعد ہی لگایا جاتا ہے اور پورے ملک میں ایک یا دو ہی کمپنی کے میٹرز لگے ہوئے ہیں۔

ان کے بقول عوام میں نرخ، فیول ایڈجسٹمنٹ اور میٹر سے متعلق غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جنہیں دور کرنے کے لیے اسمارٹ میٹر لگانے کی تجویز زیرِ غور ہے تاہم ایسے میٹرز کی قیمت 40 ہزار سے شروع ہوتی ہے جو بہت زیادہ ہے۔ لیکن یہ ہمارے مستقبل کے منصوبے میں شامل ہے۔

شنگھائی الیکٹرک کی کے الیکٹرک خریدنے میں دلچسپی

کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی نجکاری کے وقت محمد یونس اعوان کے ای ایس سی کی سی بی اے یونین کے رہنما تھے۔ ​

انہوں نے بتایا کہ 2005 میں کے ای ایس سی کو الجماعیہ گروپ نے خرید لیا تھا۔ ان سے ادارہ نہ چلایا گیا تو 2009 میں اسے 'ابراج' گروپ نے خرید لیا جس کے بعد چار ہزار سے زائد نان کیڈر ملازمین کو فارغ کر دیا گیا حالاں کہ نجکاری کے وقت وعدہ کیا گیا تھا کہ ڈاؤن سائزنگ نہیں کی جائے گی۔

چین کی شنگھائی الیکٹرک نے کے۔ الیکٹرک کو خریدنے کی پیش کش کی ہے۔ (فائل فوٹو)
چین کی شنگھائی الیکٹرک نے کے۔ الیکٹرک کو خریدنے کی پیش کش کی ہے۔ (فائل فوٹو)

کے۔الیکٹرک نے حالیہ دس برسوں کے دوان ادارے میں کئی اصلاحات کی ہیں۔ نئی کیبل، نئے میٹر اور پول لگائے گئے ہیں۔ لیکن اب کے۔الیکٹرک کو خریدنے کے لیے چین کی شنگھائی الیکٹرک پاور کمپنی نے پیش کش کی ہے۔

اس حوالے سے سی ای او کے۔ الیکٹرک مونس علوی نے بتایا کہ شنگھائی الیکٹرک نے 66 فی صد حصص انتظامی حقوق کے ساتھ 18 ارب 33 کروڑ 55 لاکھ 42 ہزار اور 678 شیئرز خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

اُن کے بقول معاہدے کے لیے نیشنل سیکیورٹی کونسل کی منظوری باقی ہے اس کے علاوہ ابھی حکومتی اداروں اور کے۔الیکٹرک پر ایک دوسرے کے واجبات کا معاملہ طے پانا ہے جس کے بعد ادارے کی فروخت کا عمل آگے بڑھے گا۔

کراچی 2023 میں لوڈ شیڈنگ فری شہر بن پائے گا؟

سندھ میں حزبِ اختلاف کے سربراہ فردوس شمیم نقوی کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت نے کے۔الیکٹرک کو نئے پلانٹ لگانے کی اجازت دے دی ہے جس سے 2021 میں مجموعی طور پر 850 میگاواٹ بجلی ملے گی۔

ان کے بقول اس وقت کے۔الیکٹرک کی سکت 3100 میگا واٹ سے زیادہ نہیں ہے جب کہ کراچی کو 3500 میگا واٹ کی ضرورت ہے۔

فردوس شمیم نقوی نے بتایا کہ مذکورہ دو پلانٹس کے علاوہ دو انٹرکنیکشن سے اپریل 2022 میں 600 اور 2023 میں 800 میگا واٹ بجلی سسٹم میں آئے گی۔ اس طرح اگلے تین برسوں میں مجموعی طور پر 2300 میگا واٹ بجلی مزید پیدا ہو گی جس کے بعد امید کی جا سکتی ہے کہ 2023 میں کراچی مکمل طور پر لوڈ شیڈنگ فری شہر بن جائے گا۔

دوسری جانب کے الیکٹرک کے سی ای او نے خوشخبری سنائی ہے کہ اگلے برس سسٹم میں 900 میگا واٹ بجلی کا اضافہ ہو گا جب کہ این ٹی ڈی سی کنڈیکٹرز کی صورت حال اور کارکردگی کو بہتر بنا دے تو مزید 300 میگا واٹ بجلی مل سکتی ہے۔

ان کے بقول ہم آئندہ برس تک 3700 میگا واٹ تک پہنچ جائیں گے جب کہ طلب 4000 میگا واٹ ہو گی جس کے لیے ہم وفاق سے 200 سے 300 میگا واٹ بجلی رینٹل پاور پلانٹ کے ذریعے حاصل کرنے کی درخواست کریں گے۔

فردوس شمیم نقوی کی خوش خیالی اور مونس علوی کے دعوے اپنی جگہ لیکن کراچی کے شہریوں کے لیے ابھی 'دلی ہنوز دور است۔'

XS
SM
MD
LG