امریکہ کے نومنتخب صدر جو بائیڈن کی تقریبِ حلف برداری میں ایک ہفتے سے بھی کم وقت باقی رہ گیا ہے۔ نومنتخب صدر 20 جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے اور اس حلف برداری کی تقریب سے قبل ہی واشنگٹن ڈی سی عملاً کسی فوجی چھاؤنی کا سا منظر پیش کر رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے واشنگٹن ڈی سی میں کانگریس کی عمارت 'کیپٹل ہِل' پر چڑھائی کے بعد دارالحکومت کی سیکیورٹی انتہائی سخت ہے اور کسی بھی ناخوشگوار صورتِ حال سے بچنے کے لیے مزید اقدامات کا سلسلہ جاری ہے۔
دارالحکومت کی سیکیورٹی کے لیے ہزاروں پولیس اہلکاروں کے ہمراہ فوجی اہلکار بھی تعینات کیے گئے ہیں جب کہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے اندیشے کے پیشِ نظر خفیہ ادارے بھی پوری طرح متحرک ہیں۔
امریکہ کے صدر کی حلف برداری روایتی طور پر کیپٹل ہِل کے سامنے 'نیشنل مال' میں منعقد ہوتی ہے جس میں ہزاروں افراد شریک ہوتے ہیں۔ لیکن کرونا کی جاری وبا کی وجہ سے جو بائیڈن کی حلف برداری کی تقریب پہلے ہی محدود کردی گئی تھی اور اس بار تقریب میں انتہائی محدود تعداد میں لوگ شریک ہوں گے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ وہ پُر اعتماد ہیں کہ 20 جنوری کو ہونے والی تقریب میں امنِ عامہ کی صورتِ حال کنٹرول میں رہے گی۔
امریکی سیکیورٹی ادارے پہلے ہی متنبہ کر چکے ہیں کہ 20 جنوری کو ہونے والی تقریب سے قبل یا اس دن بھی واشنگٹن ڈی سی میں مزید پر تشدد واقعات ہو سکتے ہیں۔
امریکی صدر کی حلف برداری سے قبل صورتِ حال کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے نیشنل گارڈز نے ملک بھر سے 21 ہزار اہلکار واشنگٹن ڈی سی میں تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے۔
نیشنل گارڈ بیورو کے مطابق سات ہزار اہلکار دارالحکومت پہنچ چکے ہیں جب کہ مزید 18 ہزار اہلکار واشنگٹن ڈی سی پہنچ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ نیشنل گارڈز امریکہ کی فوج اور فضائیہ کے ریزرو اہلکاروں پر مشتمل فورس ہے جس کے اہلکاروں کی تعداد لگ بھگ ساڑھے چار لاکھ کے قریب ہے۔ ان اہلکاروں کو کسی بھی ہنگامی صورتِ حال یا قدرتی آفت کی صورت میں امدادی کارروائیوں یا سول انتظامیہ کی مدد کے لیے طلب کیا جاسکتا ہے۔
نیشنل گارڈز کے اہلکار واشنگٹن ڈی سی میں حلف برداری کی حفاظت پر تعینات قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں اور پولیس کی معاونت کریں گے۔
چار سال قبل جب ڈونلڈ ٹرمپ حلف بردای کی تقریب منقعد ہوئی تھی تو دارالحکومت میں نیشنل گارڈز کے آٹھ ہزار اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔
نئے صدر کی تقریبِ حلف برداری کی سیکیورٹی یقینی بنانے میں سیکریٹ سروس بھی پیش پیش ہے جس کے سربراہ جیمز مرے نے کہا ہے کہ سروس کو اپنی منصوبہ بندی پر بھرپور اعتماد ہے۔
واضح رہے کہ سیکریٹ سروس امریکہ کے صدر اور نائب صدر کی سیکیورٹی کا ذمہ دار ادارہ ہے اور اسی مناسبت سے 20 جنوری کو ہونے والی تقریبِ حلف برداری کی سیکیورٹی سے متعلق امور کی قیادت اسی ایجنسی کے پاس ہے۔
امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس نے کہا ہے کہ ٹرمپ حکومت ایک منظم اور محفوظ انداز سے انتقالِ اقتدار کے لیے پر عزم ہے۔
یاد رہے کہ چھ جنوری کو جس وقت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے کیپٹل ہل پر چڑھائی کی تھی تو وہاں اس وقت نائب صدر مائیک پینس کانگریس کے اس مشترکہ اجلاس کی صدارت کر رہے تھے جس میں نومنتخب صدر جو بائیڈن کی انتخابات میں کامیابی کی توثیق کی جانی تھی۔
مظاہرین کیپٹل ہِل کی عمارت میں داخل ہو گئے تھے اور اس دوران پولیس اہلکاروں اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔ کیپٹل ہل میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے دوران پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں عمارت کی سیکیورٹی پر مامور ایک افسر بھی شامل تھا۔
نائب صدر مائیک پینس نے اعلان کیا ہے کہ وہ نو منتخب صدر جو بائیڈن کی تقریبِ حلف برداری میں شریک ہوں گے۔ البتہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ تقریب میں شریک نہ ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔
واشنگٹن ڈی سی میں ملک کی اہم ترین قانون ساز عمارت پر چڑھائی کے بعد سیکیورٹی اداروں کی جانب سے اس میں ملوث افراد کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) اب تک ہنگامہ آرائی میں ملوث درجنوں افراد کو حراست میں لے چکا ہے جب کہ حکام نے آنے والے دنوں میں مزید گرفتاریوں کا بھی عندیہ دیا ہے۔
امریکہ کے قائم مقام اٹارنی جنرل جیفری روزن کے مطابق ایف بی آئی نے 200 ملزمان کی نشان دہی کر لی ہے جب کہ بیورو نے ایک لاکھ 40 ہزار سے زائد ڈیجیٹل شواہد بھی جمع کیے ہیں۔
نومنتخب صدر جو بائیڈن کی تقریبِ حلف برداری کو 'نیشنل اسپیشل سیکیورٹی ایونٹ' قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس تقریب کی قومی اہمیت ہے اور اس دوران کئی اداروں کے درمیان سیکیورٹی کے حوالے سے باہمی معاونت درکار ہو گی۔
امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کی رپورٹ کے مطابق سیکریٹ سروس کے ڈائریکٹر جمز مرے نے ایجنسی کے اہلکاروں کو ایک میمو ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنی خدمات پیشہ وارانہ اور غیر جانب دارانہ انداز میں انجام دیں۔
نومنتخب صدر جو بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے پریشان نہیں ہیں۔
صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ کھلے مقام پر بھی حلف لینے میں خوف زدہ نہیں ہوں گے۔
تقریب کے لیے سیکیورٹی کے سخت اقدامات کے پیشِ نظر پولیس نے تقریبِ حلف برداری سے ایک ہفتہ قبل ہی واشنگٹن ڈی سی کے مرکزی علاقے کا لاک ڈاؤن شروع کر دیا تھا۔
کانگریس کی عمارت بھی عوام کے لیے بند کی جا چکی ہے اور اس کے ارد گرد عارضی باڑ لگا دی گئی ہے۔ کانگریس کی عمارت کے قریب کئی شاہراہیں، جہاں عمومی طور پر لوگوں اور گاڑیوں کا رش ہوتا ہے، خالی نظر آ رہی ہیں۔
دارالحکومت کی پولیس متنبہ کر چکی ہے کہ اگر کسی بھی شخص نے سیکیورٹی اقدامات کی خلاف ورزی کی تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور ایسے افراد کو گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔
سیکیورٹی خدشات کے باعث واشنگٹن ڈی سی کے مرکزی علاقے میں نقل و حمل کی پابندیوں کی وجہ سے شہری انتظامیہ نے کئی میٹرو اسٹاپ بھی بند کردیے ہیں جب کہ سرکاری بسوں کے لیے بھی متبادل روٹس کا اعلان کیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'بلوم برگ' کی رپورٹ کے مطابق جو بائیڈن کی تقریبِ حلف برداری سے ایک ہفتہ قبل ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کا مرکزی علاقہ کسی جنگ کی تیاری کر رہا ہو۔
رپورٹ کے مطابق موجودہ اور سابق حکام 11 ستمبر 2001 کے دہشت گرد حملوں کے بعد حالیہ صورتِ حال کو سیکیورٹی کے اعتبار سے بڑا چیلنج قرار دے رہے ہیں۔
حکام کے مطابق وہ سوشل میڈیا پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح چیٹ سائٹس کی بھی نگرانی کی جا رہی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار کانگریس کی عمارت پر چڑھائی کے واقعے کے عینی شاہدین کے ساتھ ساتھ مشتبہ افراد کے انٹرویوز بھی کر رہے ہیں تاکہ کسی بھی ممکنہ واقعے کو روکا جا سکے۔