رسائی کے لنکس

امریکہ: کانگریس کی عمارت پر حملے کی فوجداری تحقیقات کا آغاز


حکام کے مطابق سیکڑوں تفتیش کاروں کو کیپٹل ہل پر حملہ کرنے والے مجرموں کی شناخت اور اُنہیں گرفتار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
حکام کے مطابق سیکڑوں تفتیش کاروں کو کیپٹل ہل پر حملہ کرنے والے مجرموں کی شناخت اور اُنہیں گرفتار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

امریکہ کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صدر ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے بدھ کو کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل پر حملے کی فوجداری تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔

حکام نے جمعرات کو جاری اعلان میں کہا ہے کہ سیکڑوں تفتیش کاروں کو کیپٹل ہل پر حملہ کرنے والے مجرموں کی شناخت اور اُنہیں گرفتار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے قائم مقام اٹارنی مائیکل شیرون نے کہا ہے کہ فیڈرل کورٹ نے ہنگامہ آرائی کرنے کے الزام میں 15 جب کہ واشنگٹن ڈی سی کی ایک خصوصی عدالت نے 40 افراد پر فردِ جرم عائد کی ہے

مائیکل شیرون کے مطابق گرفتار مظاہرین میں سے بیشتر پر غیر قانونی طور پر دارالحکومت میں داخلے کے الزامات ہیں۔

اُن کے بقول وفاقی سطح پر ملزمان پر عائد الزامات میں حکومتی املاک کی چوری اور آتشی اسلحہ سے متعلق اصولوں کی خلاف ورزی کے الزامات بھی شامل ہیں۔

مائیکل نے مزید بتایا کہ بدھ کو گرفتار کیے جانے والے ایک ملزم کے قبضے سے نیم خودکار اسلحہ اور 11 پٹرول بم بھی برآمد کیے گئے۔

یاد رہے کہ بدھ کو کیپٹل ہل پر صدر ٹرمپ کے ہزاروں حامیوں نے اُس وقت حملہ کر کے توڑ پھوڑ کی تھی جب ایوان میں نو منتخب صدر جو بائیڈن کی انتخابات میں کامیابی کی توثیق کا عمل جاری تھا۔

مظاہرین کی ہنگامہ آرائی کے باعث اجلاس کئی گھنٹے تک تعطل کا شکار رہا۔ تاہم سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین کو کیپٹل ہل سے باہر نکالنے کے بعد ایوان نے اپنی کارروائی دوبارہ شروع کرتے ہوئے صدارتی انتخابات میں جو بائیڈن کی کامیابی کی باضابطہ طور پر توثیق کی۔

بدھ کو ہونے والی ہنگامہ آرائی کے دوران چار افراد ہلاک اور درجنوں زخمی بھی ہوئے۔

واشنگٹن ڈی سی کے قائم مقام اٹارنی کے مطابق کیپٹل ہل پر حملہ آور ہونے والے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے گرفتاریاں ابتدائی کوشش ہے اور اس سلسلے میں ہمیں کوئی غلطی نہیں کرنی کیوں کہ یہ بہت خطرناک صورتِ حال ہے۔

شیرون نے خبردار کیا کہ کیپٹل ہل پر حملہ کرنے والے ہزاروں مظاہرین نے پولیس کو وہاں سے بے دخل کر دیا تھا اس لیے ملزمان کو شناخت کرنے اور اُنہیں گرفتار کرنے میں شاید مہینوں یا پھر پورا سال بھی لگ سکتا ہے۔

اُن کے بقول سیکڑوں تفتیش کار منظرِ عام پر آنے والی ویڈیوز اور خاص طور پر سوشل میڈیا ویڈیوز کی مدد سے مجرموں کی شناخت کر رہے ہیں اور ہم جارحانہ انداز میں ان مقدمات کو دیکھیں گے۔

قائم مقام اٹارنی جنرل جیفری روزن نے کہا ہے کہ محکمۂ انصاف حکومت پر حملہ آور ہونے والوں کو قانون کے مطابق سزا دلانے کے لیے پرعزم ہے۔

جیفری روزن نے جمعرات کو جاری اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پراسیکیوٹرز نے اسپیشل ایجنٹس، کیپٹل پولیس، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی)، اے ٹی ایف اور میٹروپولیٹن پولیس ڈیپارٹمنٹ کے تفتیش کاروں کی مدد سے ملزمان کو شناخت کرنے اور وفاقی عدالت میں ان کے خلاف مقدمات بنانے کے سلسلے میں رات بھر کام کیا ہے۔

ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے کا کہنا ہے کہ ان کا محکمہ ملزمان کے خلاف تحقیقات کے سلسلے میں تمام وسائل بروئے کار لا رہا ہے۔

کرسٹوفر نے اپنے بیان میں کہا "ہمیں کوئی غلطی نہیں کرنی، ہم اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کیپٹل ہل کا گھیراؤ کرنے والے ملزمان کو کٹہرے میں لائیں گے۔"

ایف بی آئی نے عوام پر زور دیا ہے کہ ہنگامہ آرائی سے متعلق اگر ان کے پاس تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں تو وہ ان کا تبادلہ کریں۔

یاد رہے کہ کیپٹل ہل پر حملے سے قبل صدر ٹرمپ کے حامی وائٹ ہاؤس کے باہر جمع ہوئے تھے جہاں صدر نے ان سے خطاب کے دوران اپنے حامیوں کو کانگریس کی عمارت کی جانب مارچ کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کی تھی۔

بعدازاں صدر ٹرمپ نے اپنے ویڈیو پیغام میں مظاہرین کو قانون ہاتھ میں نہ لینے اور واپس گھروں کو جانے کی اپیل کی۔

امریکہ میں جمہوریت کی علامت سمجھی جانے والی کیپٹل ہل کی عمارت میں ہنگامہ آرائی کی امریکہ کے سابق صدور جارج ڈبلیو بش اور براک اوباما سمیت کئی مقامی اور عالمی رہنماؤں نے مذمت کی ہے۔

XS
SM
MD
LG