واشنگٹن ڈی سی میں چھ جنوری کو کانگریس کی عمارت پر ہنگامہ آرائی کے دوران اپنی ویڈیو بنانے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حمایتی قانون ساز نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے جب کہ توڑ پھوڑ کرنے کے الزام میں مزید افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ویسٹ ورجینیا کے 'ہاؤس آف ڈیلی گیٹس' کے رکن ڈیرک ایونز نے ہفتے کو ریاست کے گورنر کو لکھے گئے ایک جملے کے خط میں اپنا استعفیٰ پیش کیا۔
خیال رہے کہ ایونز کو کیپٹل ہل کی گراؤنڈ کے ممنوعہ علاقے میں گھسنے اور بد نظمی پھیلانے کے الزامات کاسامنا ہے۔
ان خلاف ورزیوں کے مرتکب ہونے کی صورت میں ایونز کو وفاقی جیل میں ڈیڑھ سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
ایونز نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'فیس بک' پر ہجوم کے ساتھ کیپٹل ہل کی عمارت میں داخل ہونے کی اپنی ویڈیو براہ راست نشر کی تھی۔
ویڈیو میں وہ عمارت میں داخل ہوتے ہوئے یہ کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ "ہم اب اندر داخل ہو چکے ہیں۔"
اس سے قبل انہوں نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں جسے اب ہٹا دیا گیا ہے میں خبردار کیا تھا کہ ہجوم عمارت میں داخل ہو گا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایونز نے کہا ہے کہ وہ اپنے کیے پر معافی کے طلب گار ہیں۔
حکام نے ریاست آرکنسا کے 60 سالہ شہری رچرڈ بارنٹ کو شہر لٹل راک سے جمعہ کی صبح گرفتار کر لیا ہے۔
ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کے دفتر میں گھسے تھے۔
ان پر تین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ جن میں جان بوجھ کر کیپٹل ہل کے ممنوعہ حصے میں داخل ہونا، بد نظمی کا مظاہرہ کرنا اور سرکاری پیسے، املاک یا ریکارڈ کی چوری کے الزامات شامل ہیں۔
بارنٹ کو اس سلسلے میں دارالحکومت واشنگٹن لایا جائے گا۔
گرفتار کیے گئے لوگوں میں جیکب انتھونی چانسلی بھی شامل ہیں۔ انہیں کئی تصویروں میں سینگوں والا فرکوٹ پہنے اور مختلف رنگوں میں پینٹ کیے گئے چہرے کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔
انہیں بد نظمی اور پر تشدد انداز میں کیپٹل ہل کی حدود میں داخل ہونے کے الزامات کا سامنا ہے۔
ریاست آئیووا کے شہری ڈوگ جینسن کو ہفتے کو وفاقی جیل بھیج دیا گیا۔
انہیں کانگریس کی عمارت کی حدود پار کرنے اور بد نظمی پھیلانے کے الزامات میں گرفتار کیا گیا ہے۔
ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جینسن سیڑھیاں چڑھتے سیاہ فام پولیس افسر کا تعاقب کر رہے ہیں جب کہ ان کے پیچھے لوگوں کا ہجوم بھی آ رہا ہے۔
زیرِ حراست افراد میں ریاست فلوریڈا کے 36 سالہ ایڈم جانسن اور ریاست الاباما کے 70 سالہ لونی کاف مین بھی شامل ہیں۔
امریکہ کے وفاقی تفتیشی ادارے 'ایف بی آئی' کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے کا کہنا ہے کہ اب تک کی گئی گرفتاریاں ان کوششوں کی محض شروعات ہے جن کے تحت کیپٹل ہل پر حملہ کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔