خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ہونے والے انتخابات کے متعلق اکثر لوگ بالخصوص حزب اختلاف میں شامل سیاسی جماعتوں کے عہدیدار اور امیداور تذبذب کا شکار ہیں۔
ایک طرف حکومتی ادارے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے انتخابی مہم سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسری جانب مختلف علاقوں میں تشدد اور دہشت گردی کے اکا دکا واقعات سے انتخابی مہم کو غیر یقینی صورت حال سے دوچار کیا جا رہا ہے۔
الیکشن کمشن نے 16 عام نشستوں پر انتخابات 2 جولائی کو کرانے کا فیصلہ کیا تھا مگر چند ہفتے قبل خیبر پختونخوا کی حکومت نے امن و امان اور انتظامات مکمل نہ ہونے کی بنیاد پر الیکشن کمشن کو تین ہفتوں کے لیے الیکشن ملتوی کرنے کی درخواست کی جسے قبول کر کے انتخابات 20 جولائی تک ملتوی کر دیے گئے۔ لیکن اب شمالی اور جنوبی وزیرستان میں رونما ہونے والے واقعات نے انتخابی عمل کو مشکوک بنا دیا ہے۔
شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل کے علاقے خڑ کمر میں 26 مئی کو ہونے والے واقعہ کے بعد کرفیو جیسی صورت حال نے انتخابی مہم کو انتہائی محدود کر دیا ہے، جب کہ جنوبی وزیرستان کے ضلعی مرکز وانا میں عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے انتخابی دفاتروں کو مقفل کرنے اور کارکنوں کی گرفتاریوں نے انتخابات کے متعلق شکوک شبہات پیدا کر دیے ہیں۔
سابق سینیٹر افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات اگر ہو گئے تو یہ برائے نام ہی ہوں گے، کیونکہ الیکشن کمشن نے پہلے ہی فوج کو نگران بنا دیا ہے۔ اس وجہ سے نتائج 25 جولائی 2018 کے الیکشن سے مختلف نہیں ہوں گے۔ دوسری طرف حزب اختلاف کی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت پشتون تحفظ تحریک کے کئی رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان کے امیدواروں اور کارکنوں کی انتخابی مہم میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی خیبر پختونخوا کے صدر ہمایوں خان نے کہا کہ حکومت اور سرکاری ادارے حزب اختلاف کے امیداوروں اور کارکنوں کے لیے رکاوٹیں اور مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت حکومت کو انتخابی عمل کو 25 جولائی تک مکمل کرنا ہو گا۔
قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قبائلی اضلاع سے پارلیمانی نشستوں میں اضافے سے متعلق ایک بل گزشتہ اپریل میں منظور کیا تھا جسے ابھی تک ایوان بالا میں پیش نہیں کیا جا سکا۔
حکمران جماعت پاکستان تحریک سے تعلق رکھنے والے ممبر قومی اسمبلی اقبال آفریدی کہتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے بل پر مزید غور و خوض کے لیے اداروں سے رپورٹ طلب کی ہے جسے ان کے بقول 20 جولائی تک پیش کرنا ممکن نہیں، لہذٰا یہ انتخابات ہر صورت 20 جولائی کو ہی ہوں گے۔
ضلع باجوڑ کے سابق ممبر قومی اسمبلی شہاب الدین نے حکومتی جماعت کے عہدیداروں اور امیداروں پر سرکاری وسائل کے استعمال کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ لوگ انتہائی تذبذب میں ہیں اور یوں دکھائی دیتا ہے کہ حکومت انتخابی عمل کو مکمل کرنے میں مخلص دکھائی نہیں دیتی۔ ان کے بقول حکمران جماعت انتخابی نتائج اپنے حق میں لانے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کر رہی ہے۔
پشتون تحفظ تحریک کے رہنما امین وزیر نے بھی، جو شمالی وزیر ستان میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کا ساتھ دے رہے ہیں، انتخابات کے انعقاد پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ مشکلات کے باوجود انتخابی مہم جاری ہے۔
حکمران جماعت کے اقبال آفریدی کا کہنا ہے کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں امن و امان کی صورت حال کے باعث انتخابی مہم زیادہ موثر نہیں ہے۔ وہاں پر حکومت اور حکومتی اداروں کے خلاف احتجاج کے باعث دفعہ 144 لگا دیا گیا ہے مگر ان علاقوں میں بھی دیگر اضلاع کی طرح انتخابات شیڈول کے مطابق ہوں گے۔
الیکشن کمشن کے اعداد و شمار کے مطابق 16 عام نشستوں پر نامزد 1297 امیدواروں میں سے اب تک 12 امیدوار ریٹائرمنٹ کا اعلان کر چکے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کی ناہید آفریدی قبائلی علاقوں کی تاریخ میں پہلی بار عام نشست سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان کے علاوہ باجوڑ اور کرم ایجنسی میں بم دھماکوں اور گھاٹ لگا کر قتل کرنے کے واقعات کی وجہ سے امن و امان کی صورت حال غیر اطمینان بحش ہے۔