شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل کے خڑ کمر اور دیگر علاقوں میں دس دن سے نافذ کرفیو اُٹھا لیا گیا ہے۔ ان علاقوں میں حالات میں بتدریج بہتر آ رہی ہے، اور معمول کی معاشی اور زرعی سرگرمیاں بحال ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
تحصیل دتہ خیل کے علاقے خڑکمر میں 26 مئی کو سیکورٹی فورسز کے اہل کاروں اور پشتون تحفظ تحریک کے کارکنوں کے درمیان مبینہ جھڑپ کے بعد کرفیو نافذ کیا گیا تھا۔ کرفیو کے مسلسل نفاذ پر حزب اختلاف میں شامل سیاسی جماعتیں اور قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے رہنما احتجاج کر رہے تھے۔
شمالی وزیرستان کے مرکزی قصبے میران شاہ کے ایک سینئر صحافی حاجی مجتبیٰ نے کرفیو اُٹھائے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان علاقوں میں حالات معمول پر آ چکے ہیں اور لوگوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔
تحصیل دتہ خیل کے ایک صحافی ملک جعفر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بشتر علاقوں میں معمول کی تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں بحال ہو رہی ہیں۔ تاہم بعض دیہی علاقوں میں سیکورٹی خدشات کے پیش نظر رات کا کرفیو جاری ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اب ان علاقوں میں پینے کے پانی اور بجلی کی فراہمی شروع کر دی گئی ہے۔
خڑکمر کی مبینہ جھڑپ میں ایک سیکورٹی اہل کار سمیت 15 افراد ہلاک اور 30 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ اس جھڑپ کے بعد ممبران قومی اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ سمیت پی ٹی ایم کے متعدد کارکنوں کے خلاف انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مقدمات درج کر کے انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ان دونوں رہنماؤں کو آج بنوں کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا۔
علی وزیر کے بھائی مزمل وزیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ علی وزیر بیمار ہے مگر انہیں باقاعدہ بنیادوں پر دوائیاں فراہم نہیں کی جاتیں ۔ اُنہوں نے گرفتاری کے بعد علی وزیر پر تشدد کی بھی شکایت کی۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت علی یوسفزئی اور دیگر اعلیٰ حکام نے علی وزیر کے ساتھ نامناسب سلوک کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی ایم کے رہنماؤں کے ساتھ جیل قوانین کے مطابق برتاؤ کیا جا رہا ہے، جب کہ جیل میں ان پر کسی قسم کے تشدد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔