پاکستان کے الیکشن کمشن نے جمعہ کے روز خیبر پختونخوا حکومت کو جنوبی وزیرستان سے صوبائی اسمبلی کی دو مختلف نشستوں سے انتخابات میں حصہ لینے والے آزاد امیداروں کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
عارف وزیر اور اقبال محسود کا شمار پشتون تحفظ تحریک کے اہم رہنماؤں میں ہوتا ہے اور ان دونوں کو چند ہفتے قبل حراست میں لینے کے بعد ان کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کیے تھے۔
الیکشن کمشن کے حکم پر خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ کے ایڈیشنل سیکرٹری جمعہ کے روز کمشن کے سامنے پیش ہوئے اور بتایا کہ محمد عارف وزیر اور محمد اقبال محسود کو انتخابی مہم کے دوران ریاستی اداروں کے خلاف نفرت آمیز تقاریر کرنے اور حکومتی اداروں کے خلاف لوگوں کو اکسانے کے الزام میں تین ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم الیکشن کمشن نے صوبائی حکومت کے اس موقف سے اتفاق نہ کرتے ہوئے دونوں آزاد امیداروں کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیا۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی دلاور وزیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سردار عارف وزیر اور اقبال محسود کی رہائی سے انتخابی مہم میں تیزی تو آ سکتی ہے مگر دفعہ 144 کے نفاذ کے باعث حکمران جماعت کے نامزد امیداروں کے علاوہ دیگر امیداروں کو انتخابی مہم میں سخت مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ چند روز قبل عوامی نیشنل پارٹی کے مقامی دفتر پر سیکورٹی اہل کاروں نے چھاپہ مار کر کئی کارکنوں اور عہدیداروں کو گرفتار کر لیا تھا، جب کہ اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے دفتر سے مقامی کارکنوں اور عہدیداروں کو بھی گرفتار کیا گیا تھا، جنہیں اب علاقے سے سینکڑوں کلومیٹر دور ٹانک میں جنوبی وزیرستان کے لیے قائم کی جانے والی عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ تاہم دفعہ 144 کےخلاف وزی پر رہائی کے درخواستیں تو منظور ہو جاتی ہے مگر دفاتر پر چھاپے مارنے اور کارکنوں کی گرفتاری سے انتخابی مہم سخت متاثر ہوئی ہے اور عام لوگوں میں بے چینی بڑھی ہے۔
دلاور وزیر کا کہنا ہے کہ 20 جولائی کو ہونے والے انتخابات کے بارے میں کافی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں اور یوں دکھائی دیتا ہے کہ حکمران جماعت اپنے امیداروں کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے تمام تر احتیارات اور وسائل استعمال کر رہی ہے۔
شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پارٹی کے دفاتر پر چھاپوں اور کارکنوں کے گرفتاری پر پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی رہنما سخت تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے الیکشن کمشن کی مسلسل خاموشی پر بھی شدید نکتہ چینی کی ہے جب کہ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایم ولی خان نے چیف الیکشن کمشنر پر جانبداری کا الزام لگاتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
الیکشن کمشن پر تنقید کے ساتھ ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے فوج کی نگرانی انتخابات کرانے کی بھی مخالفت کی ہے۔
صوبائی حکومت یا حکمران پاکستان تحریک انصاف نے دو آزاد امیداروں کے رہائی سے متعلق الیکشن کمشن کے احکامات پر ابھی تک کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا، تاہم باجوڑ سے ممبر قومی اسمبلی گل ظفر نے کہا ہے کہ حکومت کی کوشش ہے انتخابات 20 جولائی کو ہو جائیں اور اس میں تمام امیدوار کسی رکاوٹ کے بغیر حصہ لیں اور ووٹر پوری آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ دفعہ 144 کا نفاذ ایک انتظامی معاملہ ہے اور سول انتظامیہ اپنی ضروریات کے تحت اس قانون کا استعمال کرتی ہے۔ تاہم اب چونکہ انتخابی مہم جاری ہے لہذٰا دفعہ 144 کے نفاذ کے قانون کا استعمال کم سے کم ہونا چاہئے تاکہ امیدوار آزادی سے اپنی انتخابی مہم چلا سکیں۔