کراچی کی ایک عدالت نے بلی کی ہلاکت میں ملوث ایک خاتون کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ جانوروں کے حقوق کے کارکنوں نے فیصلے کو خوش آئندہ قرار دیتے ہوئے صوبائی اور وفاقی حکومتیں اس بارے میں جامع قانون سازی کا مطالبہ کیا ہے۔
یکم جنوری کو کراچی کے علاقے ڈیفنس فیز 8 میں ایک کار کی ٹکر سے سڑک پار کرنے والی ایک بلی شدید زخمی ہو گئی تھی، جس کی ڈرائیونگ ایک خاتون کر رہی تھی۔ وہاں موجود شہریوں نے بلی کی جان بچانے کی کوشش کی۔
موقع پر موجود فائق احمد جاگیرانی ایڈوکیٹ نے خاتون کار ڈرائیور سے بلی کا علاج کرانے کا مطالبہ کیا لیکن انکار پر انہوں نے متعلقہ تھانے میں درخواست جمع کرا دی۔ جبکہ اس دوران بلی ہلاک ہو گئی۔
پولیس کی طرف سے اس سلسلے میں مقدمہ درج نہ کیے جانے پر فائق احمد جاگیرانی نے عدالت سے رجوع کیا۔
عدالت میں سماعت کے دوران انہوں نے خاتون کار ڈرائیور کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 429 سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کرنے کے حق میں دلائل دیے۔
تعزیرات پاکستان کی ان دفعات کے تحت کسی بھی جانور کو نقصان پہنچانے والے کے خلاف جرمانے اور قید کی سزائیں مقرر ہیں۔ عدالت نے پولیس کو حکم دیا ہے کہ خاتون ڈرائیور سے اگر کوئی قابل تعزیر جرم سرزد ہوا ہے تو اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔
وائس آف امریکہ سے با ت کرتے ہوئے فائق احمد جاگیرانی کا کہنا تھا کہ اگر ان بے زبان جانوروں کو انصاف فراہم کرنے کے لئے ہمیں آگے آنا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی جدوجہد کا ایک اور مقصد جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے عدالتوں کا قیام بھی ہو گا۔
ادھر جانوروں کے حقوق کے ایک سرگرم ویٹرنری ڈاکٹر محمد علی ایاز نے عدالتی فیصلے کو خوش آئند قراردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں جانوروں کے ساتھ ناروا سلوک ایک عام سی بات ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حلال جانوروں کی ٹرانسپورٹیشن سے متعلق تو بعض قوانین موجود ہیں مگر انہیں نقصان پہنچانے اور ہلاک کرنے سے روکنے کے قوانین سرے سے موجود ہی نہیں، بلکہ خود بلدیاتی ادارے بھی لاوارث کتوں کو ہلاک کرتے نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد علی ایاز کے مطابق اس بارے میں قوانین کو واضح ہونے کے ساتھ معاشرے میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ جانوروں کو لاپرواہی یا جان بوجھ کر مارنے پر بھی سخت جرمانہ یا کوئی اور سزا مقرر کر کے ان کا تحفظ یقینی بنایا جا سکتا ہے۔