ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف پاکستان کے دو روزہ دورے پر منگل کو پاکستان پہنچے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب خطے اور عالمی سطح پر کئی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بین الافغان مذاکرات، تین نومبر کو امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے بعد کی صورتِ حال اور پاکستان، ایران، ترکی اور ملائیشیا کے درمیان ہونے والی حالیہ قربت کے بعد اس دورے کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔
ایرانی وزیرِ خارجہ نے منگل کو ہی پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق اس ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی سلامتی کی صورتِ حال سمیت افغان مصالحتی عمل، پاک ایران بارڈر مینیجمنٹ اور ایران سے پاک ایران سرحد سے متصل مارکیٹ کے قیام کے امور زیر بحث آئے۔
ملاقات کے دوران جنرل باجوہ نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان تعاون کے فروغ کا علاقائی امن و سلامتی پر مثبت اثر ہو گا۔
اگرچہ ایرانی وزارتِ خارجہ نے جواد ظریف کے دورۂ پاکستان کی تفصیلات فراہم نہیں کیں لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جواد ظریف اور پاکستانی حکام کے درمیان بات چیت میں دو طرفہ امور، افغان امن عمل اور امریکہ میں ہونے والے حالیہ صدارتی انتخابات کے مشرق وسطیٰ اور خطے پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں تبادلۂ خیال ہو گا۔
بین الاقوامی امور کے ماہر اور قائدِ اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات ایک مثبت نہج پر ہیں لیکن پاکستان مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بھی اہمیت دیتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ظفر جسپال نے کہا کہ جواد ظریف کا دورۂ پاکستان اسلام آباد اور تہران کے درمیان ہونے والے اعلیٰ سطح کے دوروں کا تسلسل ہے۔ اُن کے بقول اس سے پہلے پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان اور پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی ایران کا دورہ کر چکے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے لیے افغانستان کی صورتِ حال بھی اہم ہے اور پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جسے پاکستان نظر انداز نہیں کر سکتا۔
بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہما بقائی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان سرحد کے آر پار دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام بڑا چیلنج ہے۔ اُن کے بقول دونوں ملک اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے پر عزم بھی ہیں اور اس سلسلے میں بارڈر مینیجنمٹ کو بہتر کرنے کے لیے بھی کئی اقدام کیے گئے ہیں۔
ہما بقائی کہتی ہیں اسلام آباد اور تہران کے درمیان دہشت گردی کے واقعات سے نمٹنے لیے باہمی اعتماد ضروری ہے۔
ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان اور ایران کے درمیان باہمی اعتماد کو فروغ دینے کی کوشش جاری ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بعض شدت پسند تنظیموں کے حملوں کی وجہ سے ایران کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے جب کہ عرب دنیا میں کسی بھی تبدیلی کی صورت میں ایران خیال کرتا ہے کہ پاکستان عرب ممالک کے ساتھ ہے۔
ظفر جسپال کے مطابق پاکستان نے عرب ملکوں سے متعلق 2014 سے واضح طور پر ایک غیر جانب دار پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں سرد مہری
اگرچہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں بظاہر سرد مہری ہے۔ تاہم ہما بقائی کہتی ہیں اس کی وجہ سعودی عرب کے امریکہ اور بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات ہیں لیکن اس کے باوجود سعودی عرب کے ساتھ تعلقات استوار رکھنا پاکستان کے مفاد میں ہے۔
سعودی عرب، امریکہ اور بھارت کی تکون دوسری طرف ایک نئی تکون سامنے آ رہی ہے جس میں چین، پاکستان اور ایران شامل ہو سکتے ہیں۔
ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو دو طرفہ بنیادوں پر فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے۔ اُن کے بقول پاکستان خطے میں کسی ایک بلاک کا حصہ بنے بغیر مشرقِ وسطیٰ کے ممالک بشمول سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو قائم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔
ان کے بقول ایران اپنی خارجہ پالیسی میں نئی سمت کا تعین کر رہا ہے۔ اس وقت اس کے بھارت کے ساتھ پہلے جیسے تعلقات نظر نہیں آ رہے جب کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ ورکنگ تعلقات ہیں اور ایران کے ایسے نہیں ہیں۔
ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ خطے کی بدلتی ہوئی صورتِ حال میں ایران چین کے قریب ہو رہا جب کہ پاکستان پہلے سے چین کا اسٹرٹیجک شراکت دار ہے۔
ایران کی چین کے ساتھ بڑھتی قربتیں
ہما بقائی کا کہنا ہے کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ تہران پر واشنگٹن کی تعزیرات کی وجہ سے جمود کا شکار ہو گیا ہے۔ اگر ایران پر امریکہ کی تعزیرات نرم ہوں گی تو پاکستان کے لیے اس منصوبے کو جاری رکھنا ممکن ہو جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ گیس منصوبے کے لیے رقم فراہم کرنا بھی ایک چیلنج رہا ہے اور شاید اب چین اور ایران کے درمیان حال ہی میں 400 ارب ڈالر کے مجوزہ منصوبے پر اتفاق ہوا ہے جس کے بعد چین اس منصوبے کے لیے بھی فنڈز فراہم کر سکتا ہے۔
ہما بقائی کہتی ہیں چین کی مجوزہ سرمایہ کاری کے منصوبوں کی وجہ سے بھی پاکستان اور ایران کے تعلقات پر مثبت اثر پڑے گا۔
یاد رہے کہ اسلام آباد اور تہران نے کئی سال قبل پاک ایران گیس منصوبے کی تعمیر پر اتفاق کیا تھا لیکن یہ منصوبہ ایران پر عائد ہونے والی پابندیوں کی وجہ سے تاحال معطل ہے۔
پاکستان اور ایران اگرچہ دونوں افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں لیکن ایران کے طالبان کے بارے میں بعض امور پر اختلافات موجود ہیں۔
ہما بقائی کہتی ہیں جواد ظریف کا دورۂ پاکستان اس لیے بھی اہم ہو گیا ہے کہ امریکہ میں تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے بعد جو بائیڈن کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کے بقول اب اس بات کا قوی امکان ہے کہ امریکہ کی آئندہ انتظامیہ ایران کے ساتھ معاملات بہتر کرنے کی کوشش کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایران اور امریکہ کے درمیان قربتیں بڑھتی ہیں تو عالمی سطح پر ایران کے بارے میں موجودہ تاثر تبدیل ہو جائے گا۔
ان کے بقول پاکستان نے مشکل حالات میں جب ایران پر تعزیرات عائد تھیں، تہران کے ساتھ تجارتی روابط کو برقرار رکھا۔ اگر ایران کے لیے بین الاقوامی صورتِ حال سازگار ہوتی ہے تو پاکستان کے ایران کے ساتھ روابط کو بہتر کرنا مزید آسان ہو جائے گا۔
دوسری جانب اسلام آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز سے منسلک بین الاقوامی امور کے ماہر نجم رفیق کا کہنا ہے کہ ایران کے خیال میں اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان سفارتی رابطے تہران کے لیے بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ان کے خیال میں ایران چاہے گا کہ امریکہ کی جانب سے ایران پر آنے والے دباؤ میں کمی کے لیے پاکستان اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔