پاکستان میں حالیہ دنوں میں قوم پرست علیحدگی پسند تنظیموں کے حملوں میں تیزی آئی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت اور چین کے مابین تناؤ اور خطے میں ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں یہ حملے اہم ہیں اور حملہ آوروں کو غیر ملکی معاونت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔
بلوچستان کے علاقے پنجگور میں پیر کو پاکستان کی فوج کے قافلے پر حملے کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تنظیم بلوچ لیبریشن فرنٹ نے قبول کی ہے۔ اس حملے میں تین فوجی اہل کار ہلاک اور آٹھ زخمی ہوئے تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ قوم پرست علیحدگی پسند تنظیمیں ایک عرصے سے بلوچستان میں فعال ہیں اور نواب اکبر بگٹی کی پاکستان فوج کے طرف سے کیے جانے والے حملے میں ہلاکت کے بعد ان کی کارروائیوں میں تیزی آئی۔
اس سے قبل یہ ان تنظیموں نے سیاسی تحریک چلا رکھی تھی لیکن نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد اس کو مسلح جدوجہد میں بدل دیا گیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اس وقت کئی تنظیمیں کام کر رہی ہیں جن میں سرفہرست بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) ہے جس نے کراچی اسٹاک ایکسچینج اور چینی قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔
بلوچستان میں مسئلہ کیا ہے؟
بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان کے وسائل پر قابض ہونے کے لیے چین اور پاکستان کی وفاقی حکومت مل کر کام کر رہی ہے۔ یہ تنظیمیں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی-پیک) منصوبے کے بھی خلاف ہیں اور اکثر اس منصوبے کے مختلف مقامات پر حملوں میں بھی ملوث رہی ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اس کے ساتھ بلوچستان میں پسماندگی بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے جس سے بلوچ عوام میں دیگر صوبوں کے لوگوں کے حوالے سے تعصب پایا جاتا ہے۔ ماضی میں مختلف صوبوں بالخصوص پنجاب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو بھی یہاں نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
بلوچستان میں شورش کی بنیادی وجہ کے بارے میں دفاعی تجزیہ کار ماریہ سلطان کہتی ہیں کہ اس وقت بلوچستان میں انتظامی مسائل ہیں جن کو بہتر بنانا ہوگا۔
ان کے بقول دشمن اسی جگہ حملہ کرتا ہے جس جگہ کو وہ کمزور محسوس کرتا ہے۔
ماریہ سلطان کہتی ہیں کہ بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ انصاف کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بلوچستان میں جو نظام ہے اس میں وہاں سیاست دانوں کو پیسہ دیا جاتا ہے لیکن اس بات پر توجہ نہیں دی جا رہی کہ آیا وہ پیسہ لوگوں پر لگ بھی رہا ہے یا نہیں۔
ماریہ سلطان کے مطابق بلوچستان میں تعلیم کے نظام کو بھی بہتر بنانا ہوگا۔ شفافیت کے ساتھ ہی وہاں کے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔
بھارتی مداخلت کے الزامات
ماریہ سلطان بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں کو بھارت کی طرف سے اسپانسر کارروائیاں سمجھتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ بھارت نے کئی مواقع پر خود تسلیم کیا کہ وہ بلوچستان کی زمین کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں لداخ میں بھارت کے چین کے ساتھ مسائل ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ ہو جاتا ہے۔ بعد میں آنے والی ویڈیوز میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ وہاں موجود افراد کو عسکری تربیت دی جا رہی ہے۔ ان افراد کو کون فنڈز فراہم کر رہا ہے۔ کون تربیت فراہم کر رہا ہے۔
'بی ایل اے کو تمام سپورٹ بھارت سے مل رہی ہے'
بھارتی مداخلت کے بارے میں تجزیہ کار ہما بقائی کہتی ہیں کہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ بی ایل اے کو تمام سپورٹ بھارت سے مل رہی ہے۔
ان کے مطابق حالیہ عرصے میں بھارت کے چین کے ساتھ جس طرح تعلقات خراب ہوئے ایسے میں پاکستان 'فالس فلیگ آپریشن' کا کہہ رہا تھا لیکن بھارت بلوچستان میں دہشت گردی کو اسپانسر کرکے پاکستان اور چین دونوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔
ہما بقائی نے کہا کہ حالیہ عرصہ میں بھارت کو لداخ میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد ایران کے چاہ بہار ریل منصوبے سے بھارت کا باہر ہو جانا۔ یہ وہ اقدامات تھے جن کی وجہ سے نئی دہلی محسوس کر رہا ہے کہ چین بھارت کو پیچھے کر رہا ہے۔
ان کے بقول بھارت اس تمام صورتِ حال میں پاکستان میں بلوچستان کے اندر حملے کر کے چین کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں چین نے بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے جب کہ بلوچستان میں سی پیک اور گوادر کی بندرگاہ چین کے لیے بہت اہم ہیں لہذا بھارت ہر اس جگہ حملہ کر رہا ہے جس سے پاکستان اور چین دونوں کا نقصان ہو۔
بھارت کی بلوچستان سے متعلق پالیسی کیا ہے؟
بھارتی حکومت بلوچستان میں مداخلت کے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔ تاہم بھارتی سیاست دان کھلے عام یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ بلوچ عوام کے حقوق کی جنگ میں اُن کے ساتھ ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت میں ماضی میں بلوچستان کا نام استعمال کر کے پاکستان کو کمزور کرنے کی بات کی جاتی رہی ہے۔
اس بارے میں تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ بھارت کے سیاست دان اور تجزیہ کار اکثر میڈیا پر یہ بات کرتے رہے ہیں کہ پاکستان کو کنٹرول کرنے کے لیے بلوچستان کو ہٹ کیا جائے۔
ان کے بقول ایسے میں یہ بات بالکل ممکن ہے کہ بھارت کی طرف سے بی ایل اے کو پیسے اور تربیت فراہم کی جا رہی ہو اور بلوچستان کو کمزور کرنے کی کوشش کی جائے۔
حالیہ حملوں کے بارے میں امریکہ کے 'دی وِلسن سینٹر' کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ پاکستان کی طرف سے بھارت پر الزامات عائد کرنا نئی بات نہیں ہے لیکن حالیہ دنوں میں چین کے ساتھ تلخی کے بعد بھارت پاکستان میں چینی مفادات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ پاکستان کے اسٹاک مارکیٹ میں چین کی بھاری سرمایہ کاری ہے۔
مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ ان تمام باتوں کے باوجود پاکستان بلوچستان میں علیحدگی پسندوں سے لڑ رہا ہے۔
ان کے بقول گھر کے اندر موجود مسئلے کو حل کرنا ضروری ہے۔