رسائی کے لنکس

’باتیں سر کے اوپر سے گزر رہی ہیں‘


پاکستان تحریک انصاف کے راہنما جہانگیر ترین
پاکستان تحریک انصاف کے راہنما جہانگیر ترین

سپریم کورٹ میں جہانگیر ترین نااہلی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ایک موقع پر اپنے ریمارکس میں کہا جہانگیر ترین نے گھر بچوں کے لیے بنایا لیکن ان کی بجائے غیر ملکی بینک پر اعتبار کیا۔ بچے گھر میں رہ سکتے ہیں، بیچ نہیں سکتے۔ یہ باتیں سر کے اوپر سے گذر رہی ہیں۔

سپریم کورٹ میں جہانگیر ترین کی نااہلی کی سماعت کے دوران جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے بتایا کہ لندن میں ٹرسٹ کے ذریعے بنائی گئی رہائشی عمارت کا رقبہ 12 ایکڑ ہے اوریہ اراضی 21 لاکھ پاؤنڈ میں خریدی گئی۔ گھر کی تعمیر کے لیے 25 لاکھ پاؤنڈ کا معاہدہ کیا گیا۔ 2011 میں جہانگیر ترین نے 25 لاکھ پاؤنڈ بینکنگ چینل سے باہر بھیجے۔

جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عوامی عہدہ دار نے غیر قانونی رقم سے ٹرسٹ بنا لیا ہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ جہانگیر ترین کی نااہلی کے لیے دائر درخواست کی سماعت کررہا ہے۔

سماعت کے دوران جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے دلائل میں کہا کہ جہانگیر ترین نے اپنا کوئی اثاثہ نہیں چھپایا، عدالت کو آف شور کمپنی سے متعلق مکمل تفصيل دوں گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جہانگیر ترین اور عمران خان کے پہلے جوابات کسی ایک شخص کے تیا ر کردہ ہیں، جس پر سکندر بشیر نے جواب دیا کہ جہانگیر ترین کا جواب میں نے تیار کیا تھا۔ شائینی ویوکمپنی کے ذریعے رہائشی اراضی خریدی گئی۔

جسٹس عمرعطاء بندیال نے استفسار کیا کہ شائینی ویو کمپنی کا ٹرسٹی کون ہے، جس پر جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ ٹرسٹ اور آف شور کمپنی میں جہانگیر ترین کا کوئی اثاثہ نہیں ہے۔ اس کا کا ٹرسٹی ای ایف جی کارپوریٹ بینک ہے۔ 27 اپریل 2011 کو ٹرسٹ کی رجسٹریشن ہوئی ہے۔ ٹرسٹ کے سیٹلر جہانگیر ترین ہیں۔ کمپنی کے تحت 2 ملین پاؤنڈ کا رہائشی پلاٹ خریدا ۔ پلاٹ کوگروی رکھ کرگھر کی تعمیرکے کیے قرض لیا گیا۔ کمپنی کے ذریعے کاروباری سرگرمی نہیں ہو رہی۔ جہانگیر ترین کے بچوں میں بھی گھر کا کوئی مالک نہیں ہے۔ قرض کی ادائیگی آف شور کمپنی کرتی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم آف شور کمپنی اور ٹرسٹ کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں بتائیں کہ باہر جائیداد خریدنی ہو تو کیا طریقہ کار ہے۔ ہمیں آف شور کمپنی کی تشکیل کی مکمل تصویر بتائی جائے۔

سکندر بشیر نے بتایا کہ ٹرسٹ بنانا کمپنی خريدنا ایک قانونی طریقہ کار ہے۔ سب سے پہلے ٹرسٹ بنایا جاتا ہے وہ ٹرسٹ پھر آف شور کمپنی خريدتا ہے۔ ایک بار ٹرسٹ بنا لیا جائے تو اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت کو ٹرسٹ دستاویز اور جہانگیر ترین کے بچوں کے گوشوارے بھی دوں گا لیکن یہ پرائیویٹ دستاویز ہیں، انہیں پبلک نہ کیا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تمام فریقین کو دفاع کا موقع دینا چاہتے ہیں۔ تکنیکی نکات کو کارروائی میں رکاوٹ نہیں بننے دیں گے۔ پہلے دن ہی کہا تھا کہ تمام ریکارڈ لایا جائے۔ عدالت کے ریکارڈ طلب کرنے پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ محکمہ مال کا ریکارڈ بھی طلب کیاتھا۔ ہمارے پاس اصل سوال دیانت داری کا ہے۔ یہ بتا دیں کمپنی کے لیے پیسہ باہر کیسے بھیجا گیا۔

دوران سماعت جسٹس عمرعطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو ہمیں یہ بتانا ہے کہ جہانگیر ترین کا کمپنی پر کنٹرول نہیں ہے۔ ان کی ہدایات کا کمپنی پر إطلاق نہیں ہوتا۔ آف شور کمپنی کو پیسہ کون بھیجتا ہے۔ کیا کمپنی کے لیے قرض کی ادائیگی جہانگیر ترین کرتے ہیں۔ جواب میں سکندر بشیر نے کہا کہ رقم ٹرسٹی کو بھیجی جاتی ہے اور آف شور کمپنی کو بذریعہ ٹرسٹ فنڈنگ جہانگیر ترین کرتے ہیں۔

جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ عوامی عہدہ دارنے غیر قانونی رقم سے ٹرسٹ بنا لیا ہے۔ جب کاغذات نامزدگی کا وقت آتا ہے تو کہتا ہے یہ میرا اثاثہ نہیں ہے۔ جس پر جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ ٹرسٹ نیو جرسی اور انگلینڈ کے قانون کے مطابق بنایا گیا ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ اس طرح کا ٹرسٹ اثاثوں کو چھپانے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ سکندر بشیر نے جواب میں کہا کہ اس کا جہانگیر ترین کو فائدہ کیا ہوگا۔ جس پر جسٹس عمر عطاء نے کہا کہ فائدہ یہ ہوگا کہ کاغذات نامزدگی میں اثاثہ بنانا نہیں پڑے گا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جہانگیر ترین نے بچوں کا گھر بنایا لیکن وہ بینفیشل مالک نہیں۔ بچوں کے بجائے جہانگیر ترین نے غیر ملکی بینک کے نمائندوں پر اعتبار کیا۔ بچے صرف گھر میں رہ سکتے ہیں اثاثے کو فروخت نہیں کرسکتے۔ یہ ساری باتیں سر کے اوپر سے گذر رہی ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کمپنی کے لیے رقم کیسے اور کب بھیجی گئی۔ جس پر سکندر بشیر نے کہا کہ یہ ایون فیلڈز کے اپارٹمنٹ نہیں ہیں جن کی کوئی منی ٹریل نہیں آئی۔ جہانگیر ترین نے اپنی قانونی آمدن باہر بھجوا ئی اور ساری منی ٹریل دی ہے۔ بچوں کے گوشواروں میں ٹرسٹ اور کمپنی کو ظاہر کیا گیا۔

چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ جہانگیر ترین نے کتنی رقم باہر بھیجی اور رہائشی اراضی کا رقبہ کتنا ہے۔ جس پر وکیل سکندر بشیر نے بتایا کہ رہائشی پلاٹ کا رقبہ 12 ایکڑ ہے اور یہ پلاٹ 21 لاکھ پاؤنڈ میں خریدا گیا۔ گھر کی تعمیر کے لیے 25 لاکھ پاؤنڈ کا معاہدہ کیا گیا۔ 2011 میں جہانگیر ترین نے 25 لاکھ پاؤنڈ بینکنگ چینل سے باہر بھیجے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا ٹیکس حکام کو رقم منتقلی تک رسائی تھی۔ جس کے جواب میں جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ فارن کرنسی اکاؤنٹ کو قانون کے تحت مکمل تحفظ حاصل ہے۔ جہانگیر ترین کے وکیل کے دلائل جاری ہیں تاہم کیس کی مزید سماعت بدھ تک ملتوی کردی گئی۔

XS
SM
MD
LG