رسائی کے لنکس

جہانگیر ترین نااہلی کیس، دستاویزات پر سپریم کورٹ کا عدم اطمینان


سپریم کورٹ میں عمران خان، جہانگیر ترین نااہلی کیس میں عدالت نے جہانگیر ترین کی لیز پر لی گئی 18ہزار ایکڑ زمین کا خسرہ گرداوری کا محکمہ مال کا ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔

جہانگیر ترین کے وکیل نے لیز کے معاہدوں کا ریکارڈ پیش کیا جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ صرف لیز معاہدے سے حقائق واضح نہیں ہوتے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ اس کیس کی سماعت کررہا ہے۔ وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ عدالتی احکامات پر تمام ریکارڈ فراہم کیا ہے۔ لیز معاہدے گھر کے بڑوں کے ساتھ کیے گئے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی دستاویزات میں خسرہ گردواری شامل نہیں۔ صرف لیز معاہدے سے حقائق واضح نہیں ہوتے۔ کسی ایک دستاویز سے ثابت کریں کہ لیز کی زمین پر کاشتکاری کی جاتی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ چاہتے ہیں عدالت معاملے پر کمیشن بنائے اور محکمہ مال کے افسران کو ریکارڈ سمیت طلب کیا جائے۔ دیے جانے والے لیز معاہدے کسی سطح پر بھی رجسٹر نہیں۔ عموعی طور پر ادائیگی کراس چیک سے نہیں ہوتی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ادائیگیوں کے لیے دیے گئے کراس چیک صرف گنے کے کرشنگ سیزن کے دوران کے ہیں۔ سکندر بشیر نے کہا کہ چیک خاندان کے سربراہ کے نام جاری ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لیز کا معاملہ محکمہ مال کے سرکاری ریکارڈ میں کیوں نہیں ہے؟ جس پر سکندر بشیر نے کہا کہ زمین کے مالکان نہیں چاہتے تھے کہ سرکاری ریکارڈ میں بات آئے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ دستاویزات لے آئیں تو حقائق سامنے آ جائیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے اپنے دستاویزات بھی اپ کے موقف کی نفی کرتے ہیں۔ کوشش ہے کہ دستاویزات پر مزید گفتگو نہ کروں۔ آپ کے پاس لیز معاہدوں اور کراس چیکس کے علاوہ کچھ نہیں۔ آپ کی جمع کرائی ہوئی جمع بندیاں آپ کے موقف کو درست ثابت نہیں کرتیں۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ عموما بوگس ادائیگیوں کو زرعی آمدن ظاہر کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بوگس ادائیگی کا لفظ جہانگیر ترین کے لیے استعمال نہیں کیا۔ سکندر بشیر مہمند کہ کہا کہ جہانگیر ترین کا کاروبار شفاف ہے بوگس نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے سرکاری ریکارڈ پر ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ عدالت نے جہانگیر ترین سے لیز زمین کی خسرہ گرداوری طلب کر لی۔

کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ہے۔

XS
SM
MD
LG