علی رانا
سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کے راہنما جہانگیر ترین کے خلاف حنیف عباسی کی جانب سے دائر نااہلی کیس کی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ جہانگیر ترین کی جانب سے جمع کرائے جانے والے ٹیکس اور انتخابي گوشواروں میں تضاد ہے۔
انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جو لوگ زرعی آمدن زیادہ بتاتے ہیں ان پر کالا دھن سفید کرنے کا شبہ کیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے دیکھنا ہے کہ نااہلی کیس میں کہیں زیادہ آمدن بتا کر کالا دھن تو سفید تونہیں کیا جارہا۔
سپریم کورٹ میں جہانگیرترین نااہلی کیس کی سماعت چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل کے بارے میں صرف شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے۔ آمدن میں تضاد پر متعلقہ فورم نے جہانگیر ترین کی وضاحت تسلیم کی ہے جبکہ کاغذات نامزدگی کے ساتھ ٹیکس گوشواروں کی تفصيل موجود تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ الیکشن کمشن کو آمدن کم کیوں ظاہر کی گئی ۔ کسی کی زرعی آمدن اتنی نہیں ہو سکتی جتنی جہانگیر ترین نے ظاہر کی ہے۔ ٹیکس گوشواروں میں زرعی آمدن زیادہ ظاہر کر کے کالا دھن سفید تو نہیں کیا گیا۔
جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے کہا کہ جہانگیر ترین سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں۔ ٹیکس گوشواروں میں لیز پر لی گئی زمین کی آمدن بھی ظاہر کی گئی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر لینڈ ریکارڈ سے ثابت ہوا کہ جہانگیر ترین کے پاس اراضی لیز پر نہیں تھی تو ایسی صورت حال میں جہانگیر ترین کا موقف کیا ہوگا؟
چیف جسٹس نے جہانگیر ترین کے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ ٹھیکے پر زمین لینے کا ریکارڈ پیش کریں۔ دیکھنا ہے کہ ڈیکلریشن درست ہے یا نہیں۔ جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ وہ دستاویزات حاصل کر کے عدالت میں پیش کر دیں گے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ جہانگیر ترین پر کالا دھن سفید کرنے کا الزام ہے۔ زمین ٹھیکے پر لے کر کتنی ادائیگی کی گئی، شفافیت کے لیے ادائیگیوں کا ریکارڈ عدالت میں پیش کریں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے معاملہ ایمان داری کے اعتبار سے پرکھنا ہے۔ ہم یہاں کسی کی ٹیکس ادائیگی سے متعلق حوصلہ شکنی نہیں کرنا چاہ رہے۔ آپ کی زرعی اراضی کتنی ہے اور آمدن کتنی ہے، آپ ہمیں جمع بندی، خسرہ بندی اور اس سے متعلق تمام ریکارڈ دیں۔
اس موقع پر جہانگیر ترین کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہمارا مقدمہ پانامہ کیس سے مختلف ہے، کیونکہ نواز شریف 36سال سے عوامی عہدہ پر رہے اور ان کے خلاف مقدمہ آمدن سے زائد اثاثوں کا تھا۔ جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ٹیکس ادا کرنے والوں کو معمولی غلطی پر سزا دی تو وہ ریلیف کے لئے کہاں جائیں گے۔
کیس کی سماعت دس مئی کو دوبارہ ہو گی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کے راہنما جہانگیر ترین کے خلاف حنیف عباسی کی درخواست پر سماعت جاری ہے۔ جہانگیر ترین پر قرضے لے کر معاف کروانے اور آف شور کمپنیاں بنا کر اثاثے چھپانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
عدالت عظمٰی نے عمران خان نااہلی کیس میں سماعت مکمل کرلی ہے لیکن اب تک فیصلہ محفوظ نہیں کیا۔ امکان ہے کہ جہانگیر ترین نااہلی کیس کی سماعت مکمل ہونے پر دونوں مقدموں کا فیصلہ ایک ساتھ سنایا جائے گا۔