اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے غیر منتخب ارکان کو کسی بھی کابینہ کمیٹی کا سربراہ یا رکن بنانے کو غیر قانونی قرار دینے کے بعد حکومت کو نئے بحران کا سامنا ہے۔
حکومت کے سامنے یہ سوال ہے کہ معاونین خصوصی یا مشیران ان کمیٹیوں کے رکن یا سربراہ نہیں بن سکتے، تو اب کون کمیٹیوں میں شامل ہو گا۔
ساتھ ہی اس فیصلے کے بعد ان مشیروں اور معاونینِ خصوصی کے کیے گئے فیصلوں کی قانونی حیثیت کیا ہو گی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے رکنِ قومی اسمبلی رانا اردات شریف خان کی جانب سے نجکاری سے متعلق کابینہ کمیٹی میں غیر منتخب ارکان کی شمولیت کے خلاف دائر درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کیا ہے۔
عدالتی فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ غیر منتخب مشیر اور معاونینِ خصوصی ایگزیکٹو کے دائرہ کار میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ جب کہ غیر منتخب ارکان کابینہ کمیٹیوں کے رُکن یا سربراہ بھی نہیں بن سکتے۔
عدالت نے قرار دیا کہ وزیرِ اعظم کے معاونینِ خصوصی کابینہ کا حصہ ہیں۔ نہ ہی وہ کارروائی میں شامل ہو سکتے۔ جب کہ وزیرِ اعظم کے معاونینِ خصوصی وفاقی وزیر ہیں اور نہ ہی وزیر مملکت ہیں۔
عدالت نے وزیرِ اعظم عمران خان کے مشیر برائے خزانہ حفیظ شیخ، مشیر برائے صنعت و تجارت عبد الرزاق داؤد اور مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین کی کابینہ کمیٹی برائے نجکاری میں شمولیت غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کمیٹی کی تشکیل کا نوٹی فکیشن بھی کالعدم قرار دے دیا ہے۔
'مشیر اور معاونین دفاتر استعمال نہیں کرسکتے'
اس کیس میں وکیل محسن شاہ نواز رانجھا نے نجی ٹی وی چینل 'اے آر وائے نیوز' پر ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستان کے آئین میں درج ہے کہ منتخب نمائندے ہی پاکستان کو چلا سکتے ہیں۔ آئین کی شقوں کے تحت ایسا ممکن نہیں کہ غیر منتخب افراد ایسے فیصلے کریں۔
انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق اس فیصلے کے بعد اصل عمل شروع ہو گا۔ بد قسمتی ہے کہ منتخب لوگوں کو کوئی نہیں پوچھ رہا۔
ان کے بقول وہ لوگ جنہوں نے عوام کا سامنا کرنا ہے، ان کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ لوگ جنہوں نے کل کو آرام سے چلے جانا ہے، وہی ملک چلا رہے ہیں۔
اس سوال پر کہ وہ سرکاری عمارت اور گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں۔ اس فیصلہ کے بعد وہ کیا ایسا کر سکیں گے؟ محسن شاہ نواز رانجھا نے کہا کہ فیصلے کے مطابق وفاقی وزیر یا وزیر مملکت کے برابر کسی مشیر یا معاون خصوصی کو کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب صرف مراعات سے ہے۔ انہیں وزیرِ مملکت نہیں بنایا جا سکتا۔ کابینہ ڈویژن کو چاہیے کہ جو مراعات وہ استعمال کر رہے ہیں، ان سے فوراً واپس لے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کسی معاون کو وزارت نہیں دے سکتی۔ اگر کوئی شخص وزارت سے متعلق فیصلہ کرتا ہے تو وہ براہ راست سیکرٹری یا کسی اور افسر کو کہنے کا مجاز نہیں ہے۔ اسے جو بھی فیصلہ کرنا ہو گا، وہ وزیرِ اعظم کو مشورے کی صورت میں دے سکتا ہے اور اس کی تمام دستاویزی کارروائی وزیرِ اعظم آفس سے ہو گی۔
ان کے بقول اس بارے میں کسی مشیر یا معاون خصوصی کو اپنے دفاتر استعمال کرنے کا بھی حق نہیں۔ انہیں چاہیے کہ وزیرِ اعظم ہاؤس یا وزیرِ اعظم سیکریٹریٹ میں کوئی دفتر استعمال کریں اور جن شعبوں کے لیے انہیں مشیر یا معاون خصوصی بنایا گیا ہے، اس کے لیے اپنی سفارشات وہیں سے وزیرِ اعظم کو دیں۔
'فیصلہ سازی پر عمل درآمد روک دیا جانا چاہیے'
اس بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر وکیل عمر گیلانی کہتے ہیں کہ آئین کے مطابق کوئی معاونِ خصوصی اہم دستاویزات پر بھی دستخط نہیں کر سکتا۔ اس کا کام وزیرِ اعظم کو صرف مشاورت فراہم کرنا ہے۔ لیکن اگر کسی ایک شخص کو فائدہ پہنچا ہو تو اس کو قانون ریلیف دے سکتا ہے۔
عمر گیلانی کا کہنا تھا کہ بہت سے اہم فیصلے جو حکومت کے ان معاونین نے کیے وہ عدالت میں چیلنج کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن کئی ایسے فیصلے جو ابھی ہو رہے ہیں، ان پر عمل درآمد روک دیا جانا چاہیے۔ جیسے کہ پی آئی اے کی نجکاری وغیرہ کا فیصلہ ہے۔
ان کے بقول اگر کوئی فرد اس حوالے سے عدالت سے رجوع کرے گا، تو اس کو ریلیف مل سکتا ہے۔ اور ممکن ہے کہ آئندہ چند دن میں پی آئی اے کی مختلف یونینز اس حوالے سے عدالتوں کا رخ کریں۔
آئینی اور قانونی ماہر کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے سے پانچوں مشیر اور 16 معاونین خصوصی متاثر ہوئے ہیں۔ اب ان کے پاس انتظامی اختیارات نہیں ہوں گے۔
ان کے مطابق حکومت کے پاس دو آپشن ہیں، یا تو فیصلے کو چیلنج کرے یا تمام کمیٹیوں کی تشکیل نو کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان معاونین کے کیے گئے فیصلوں کو عدالتوں میں چیلنج کر کے ختم کرایا جا سکتا ہے۔
کس کمیٹی میں کون شامل ہے؟
اس وقت چار کمیٹیوں کے چیئرمین وزیرِ اعظم کے مشیر برائے خزانہ حفیظ شیخ ہیں۔ حفیظ شیخ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی، کابینہ کمیٹی برائے نجکاری، کابینہ کمیٹی برائے سرکاری ملکیتی ادارے اور قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی (ایکنک) کے چیئرمین ہیں۔
حفیظ شیخ کابینہ کی توانائی اور سی پیک کمیٹیوں میں بطور رکن بھی شامل ہیں۔
مشیر صنعت و تجارت عبد الرزاق داؤد ای سی سی، کابینہ کمیٹی برائے نجکاری، کابینہ کمیٹی برائے سرکاری ملکیتی ادارے اور کابینہ کمیٹی برائے توانائی میں بطور رکن شامل ہیں۔
اسی طرح مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین ای سی سی، کابینہ کمیٹی برائے نجکاری و سی پیک اور کابینہ کمیٹی برائے ادارہ جاتی اصلاحات کے رکن ہیں۔
مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی میں بطور رکن، مشیر مرزا شہزاد اکبر کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی میں بطور رکن، معاون خصوصی اسٹیبلشمنٹ ارباب شہزاد کابینہ کمیٹی برائے ادارہ جاتی اصلاحات میں رکن کے طور پر شامل ہیں۔
معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر کابینہ کمیٹی برائے ادارہ جاتی اصلاحات کے رکن ہیں۔
یہ تمام کابینہ کمیٹیاں وزیرِ اعظم عمران خان نے رولز آف بزنس 1973 کے تحت حاصل اختیار کے تحت تشکیل دیں۔
اس عدالتی فیصلے پر حکومت کا فوری طور پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔ البتہ بدھ کو اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اسلام آباد میں اجلاس مشیر خزانہ حفیظ شیخ کی سربراہی میں ہونا تھا لیکن یہ اجلاس اچانک ملتوی کر دیا گیا تھا۔