رسائی کے لنکس

'ظفر مرزا اور تانیہ ایدروس کے استعفوں کا دوہری شہریت سے کوئی تعلق نہیں'


وزیر اعظم عمران خان وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے (فائل)
وزیر اعظم عمران خان وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے (فائل)

وزیراعظم عمران خان کے معاونین ظفر مرزا اور تانیہ ایدروس بظاہر دہری شہریت پر مستعفی ہوئے تھے۔ لیکن، تجزیہ کاروں کے علاوہ وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری کا کہنا ہے کہ دونوں کے استعفوں کا دہری شہریت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ کہ، مبینہ طور پر، دونوں پر سنگین الزامات عائد ہیں۔

ان پر عائد الزامات کیا ہیں اور معاملہ ہے کیا؟

گزشتہ روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر تانیہ ایدروس نے اپنا استعفیٰ وزیراعظم عمران خان کو بھیجا جس میں کہا گیا کہ عوامی مفاد کے خاطر عہدے سے استعفیٰ دیا۔ انہوں نے تحریر کیا کہ میں پاکستان میں خدمت کے جذبے سے آئی تھی۔ لیکن، میری کنیڈین شہریت کے حوالے سے بہت باتیں کی گئیں۔ میری پیدائش کینیڈا میں ہوئی اور وہاں پیدا ہونا میری خواہش نہیں تھی۔ پاکستان کو جب میری ضرورت پڑے گی میں حاضر ہوں۔

تانیہ ایدروس کون ہیں؟

تانیہ ایدروس پاکستان سے 20 سال پہلے بیرون ملک چلی گئی تھیں اور انہوں نے پہلے امریکا کی برانڈیز یونیورسٹی سے بائیولوجی اور اکنامکس میں بی ایس کی ڈگری لی اور پھر میساچوسٹس انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی سے ایم بی اے کیا۔

بعد ازاں، انہوں نے ایک اسٹارٹ اپ کلنک ڈائیگنوسٹک کی بنیاد رکھی اور اس کی ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا۔

پھر انھوں نے گوگل کی جنوبی ایشیا کی کنٹری منیجر کے طور پر 2008 سے 2016 تک کام کیا اور پھر انہیں گوگل کے پراڈکٹ، پیمنٹ فار نیکسٹ بلین یوزر پروگرام کی ڈائریکٹر بنادیا گیا اور گزشتہ سال انہیں ڈیجیٹل پاکستان ویژن کی سربراہ اور بعد میں معاون خصوصی مقرر کیا گیا۔

تانیہ ایدروس پر الزامات

تانیہ ایدروس کو پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین پاکستان لائے جس کا اظہار انہوں نے گزشتہ سال ڈیجیٹل پاکستان کی تقریب سے خطاب میں بھی کیا۔ تانیہ ایدروس اس وقت تنازعہ کا شکار بنی جب رواں ماہ انہوں نے مالیاتی اثاٖثوں اور دہری شہریت کی تفصیلات پیش کیں اور اس وقت بھی جب ان کی ڈیجیٹل پاکستان فاؤنڈیشن نامی غیرسرکاری تنظیم میں شمولیت کا انکشاف ہوا۔

سکیورٹی اینڈ ایکسچنج کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق، ڈیجیٹل پاکستان کو جن لوگوں کے نام پر رجسٹر کیا گیا ہے ان میں تانیہ ایدروس کے علاوہ جہانگیر ترین اور آن لائن ٹیکسی سروس کریم کے سی ای او مدثر الیاس کا نام بھی شامل تھا۔ تاہم، جہانگیر ترین نے رواں سال 15 اپریل کو استعفیٰ جمع کروایا تھا جسے مںظور کر لیا گیا تھا۔

تجزیہ کار مظہر عباس کے مطابق، تانیہ ایدروس نے ڈیجیٹل پاکستان فاؤنڈیشن کے نام سے این جی او بنائی جس کی فنڈنگ میں بے قاعدگیوں کے الزامات سامنے آئے۔ وزیراعظم عمران خان نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا، تحقیقات کے دوران تانیہ ایدروس الزامات سے بری الزمہ نہ ہو سکیں۔ پاکستان کو ڈیجیٹل بنانے کا منصوبہ تانیہ ایدروس کی این جی او کو ملا۔ لیکن ان پر عائد الزامات کے باعث انہیں چند ماہ میں ہی اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔

تانیہ ایدروس کے اثاثے

کابینہ ڈویژن کی جاری کردہ تفصیلات اور کابینہ ڈویژن کی ویب سائیٹ پر موجود تفصیلات کے مطابق، تانیہ ایدروس امریکا، برطانیہ، سنگاپور میں 45 کروڑ 26 لاکھ روپے مالیت کے مکانات کی مالک ہیں، جبکہ انہوں نے بیرونِ ملک میں ایک کروڑ 25 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی۔ تانیہ ایدروس نے 95 ہزار 789 ڈالر پاکستان منتقل کیے اور گاڑی خریدنے سمیت دیگر اخراجات کے لیے رقم بھی منگوائی۔ انہوں نے 82 لاکھ روپے مالیت کی گاڑی خریدی، جبکہ اُن کے پاس 50 تولہ سونا موجود ہے۔ تانیہ ایدروس پاکستان میں کسی بھی غیر منقولہ جائیداد کی مالک نہیں ہیں۔

ظفر مرزا کا استعفی

ڈاکٹر ظفر مرزا نے بھی اپنے استعفے میں لکھا ہے کہ کہ وہ معاون خصوصی کے کردار پر مسلسل تنقید کے باعث مستعفی ہوئے۔ انہیں خوشی ہے کہ انہوں نے اس وقت استعفیٰ دیا جب کرونا کیسز کم ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ وزیراعظم عمران خان کی خصوصی درخواست پر عالمی ادارہ صحت چھوڑ کر پاکستان آئے تھے۔ تاہم، تنقید کی وجہ سے مستعفی ہورہے ہیں اور پاکستان کے عوام مزید بہتر ہیلتھ کیئر کے مستحق ہیں۔

ظفر مرزا پر الزامات کیا ہیں؟

اگرچہ حکومت کی طرف سے ڈاکٹر ظفر مرزا پر باضابطہ طور پر کوئی الزامات عائد نہیں کیے گئے، تاہم ڈاکٹر ظفر مرزا پر الزام تھا کہ انہوں نے بھارت سے خلاف ضابطہ ادویات درآمد کرنے میں کردار ادا کیا۔ وزیراعظم ادویات ساز کمپنیوں کی ازخود قیمت بڑھانے کا اختیار ختم کرنا چاہتے تھے، جبکہ ڈاکٹر ظفر مرزا نے ادویات ساز کمپنیوں کا اختیار واپس لینے کی سمری وفاقی کابینہ سے واپس لے لی تھی۔ لیکن وزیراعظم کے اصرار پر جب سمری منگوائی تو ڈاکٹر ظفر مرزا نے کابینہ اجلاس میں ادویات ساز کمپنیوں کا اختیار واپس لینے کی سمری کی مخالفت کی تھی جس پر وزیراعظم نالاں تھے۔

وائس آف امریکہ کو موصول دستاویزات کے مطابق، وفاقی کابینہ نے 9 اگست 2019 کو بھارت سے درآمدات پر پابندی لگائی۔ تاہم، وفاقی کابینہ کے بجائے وزیراعظم آفس سے 25 اگست کو فیصلے میں ترمیم کروائی گئی۔

دستاویز کے مطابق، سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں وزیرِ اعظم آفس منظوری دینے کا مجاز نہیں۔ اس دستاویز میں بتایا گیا کہ مشیرِ تجارت عبدالرزاق داؤد اور معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا نے ملاقات کی جس کے بعد وزارتِ تجارت نے 24 اگست 2019 کو کابینہ ڈویژن کو فیصلے میں ترمیم کے لیے خط لکھا۔

ظفر مرزا کے اثاثوں کی تفصیلات

ڈاکٹر ظفر مرزا کے اثاثوں کی مالیت 6 کروڑ 3 لاکھ روپے ہے معاون خصوصی کے پاس 2 کروڑ روپے مالیت کا گھر اور 3 کروڑ کے پلاٹس بھی ہیں، اہلیہ کے پاس 20 لاکھ روپے مالیت کے زیورات بھی ہیں۔

تجزیہ کاروں اور سیاستدانوں کی رائے

وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی نظر میں دونوں کے استعفوں کا دہری شہرت سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ جو کام تانیہ ایدروس کر رہی تھیں وہی کام نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کر رہا ہے، ایک ہی کام کیلئے دو اداروں کی وجہ سے کام میں مسائل آرہے تھے۔

ظفر مرزا کے استعفے کے بارے میں فواد چودھری نے کہا کہ کارکردگی کے جائزے میں ظفر مرزا سے متعلق کچھ ایشوز سامنے آئے تھے۔ ان معاملات کی وجہ سے وزیراعظم ڈاکٹر ظفر مرزا سے بھی مطمئن نہیں تھے۔

تجزیہ کار مظہر عباس نے بتایا کہ تانیہ ایدروس کو ہٹانے کی بڑی وجہ انکی جہانگیر ترین کے ساتھ قربت تھی، جو ہی ان کو لائے تھے؛ کیونکہ اب جہانگیر ترین کے حکومت کے ساتھ تعلقات ٹھیک نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان دونوں معاونین کے استعفی سے کوئی سیاسی ہل چل نہیں ہوگی۔ لیکن، اگر اور معاونین استعفیٰ دیتے ہیں تو پھر ضرور سیاسی سطح پر اٖثرات ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تانیہ ایدرویس کے بطور این جی او میں ڈائریکٹر کام کرنے سے مفادات کا ٹکراو سامنے آیا تھا اور اس حوالے سے کابینہ میں بھی بات ہوئی جبکہ معاونین کی دہری شہریت کا معاملہ بھی کابینہ میں زیر بحث آیا تھا۔ کابینہ میں کچھ وزیروں نے وزیراعظم کے سامنے غیر منتخب افراد پر زیادہ توجہ کی شکایت کی تھی اور اسی بنا پر غیر منتخب حکومتی ارکان کو اپنے اثاثے ظاہر کرنا پڑے۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان میں حزب اختلاف اتنی موثر نہیں اور حکومت پر اپوزیشن کا کوئی دباو نہیں۔ اگر اپوزیشن موثر طریقے سے کام کرے تو حکومت پر ان ایشوز پر دباو بڑھ سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG