چین نے کہا ہے کہ پاکستان وہ پہلا ملک ہے جسے کرونا وائرس کی ویکسین سے متعلق ہونے والی ریسرچ سے مسلسل آگاہ رکھا جا رہا ہے۔
پاکستان میں چین کے سفیر یاؤ چِنگ نے جمعرات کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین کرونا وائرس کی ویکسین کی تیاری کے لیے ہونے والی ریسرچ پر پاکستان کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کر رہا ہے۔
چینی سفارت کار نے کہا کہ چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبوں پر 13 ہزار چینی ہنر مند اور 60 ہزار پاکستانی کام کررہے ہیں۔ ان کے بقول کرونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد سی پیک پر کام کرنے والی کسی بھی فرد کی ملازمت ختم نہیں کی گئی۔
چینی سفیر بولے کہ کرونا وبا کے بعد وہ ذاتی طور پر دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کو فروغ دینے کے لیے سرگرم ہیں۔
چین کے سفارت کار کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حال ہی میں چین کی ایک دوا ساز کمپنی نے پاکستان کے قومی ادارہ صحت کو کرونا سے بچاؤ کی ایک تجرباتی ویکسین کی آزمائش کے مرحلے میں تعاون کی پیش کش کی ہے۔
اگرچہ پاکستانی حکام کی طرف سے اس پیش کش کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے جمعرات کو ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ "ہم نے قومی ویکسین ٹاسک فورس تشکیل دی ہے، جو ویکسین آنے کی صورت میں اس کی ترسیل کی حکمت عملی وضع کرے گی۔"
ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں 150 ادارے ویکسین کی تیاری کے لیے سرگرم ہیں۔ اُن کے بقول ان میں سے 12 اداروں نے کافی پیش رفت کر لی ہے، لیکن فوری طور پر ویکسین بننے کا امکان نہیں ہے۔
کراچی کی ڈاؤ یونیورسٹی کے کالج آف بائیو ٹیکنالوجی کے پرنسپل ڈاکٹر شوکت علی کا کہنا ہے کرونا وائرس کی ویکسین کی تیاری میں بیجنگ اور اسلام آباد کے درمیان کسی بھی سطح پر ہونے والا تعاون خوش آئند ہے۔
ان کے بقول پاکستان میں کووڈ-19کی ویکسین کی آزمائش شروع ہونے سے پہلے یہ زیادہ مناسب ہو گا کہ اس آزمائشی ویکسین کے چین میں آنے والے نتائج کا تبادلہ بھی کیا جائے۔
چین، امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا کے کئی ملک کرونا ویکسین کی تیاری پر کام کر رہے ہیں۔ چینی حکام نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ چین رواں سال کے آخر تک ویکسین تیار کر لے گا۔
البتہ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ وائرس سے بچاؤ کی مستند ویکسین تیار ہونے میں وقت لگ سکتا ہے۔
ڈاکٹر شوکت علی کا کہنا ہے کہ پاکستانی طبی ماہرین کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ مذکورہ ویکسین کے پہلے مرحلے کے نتائج کیا تھے۔ اسی بنیاد پر پاکستان میں اس کا ٹرائل کیا جانا چاہیے۔
ان کے بقول دنیا میں ویکسین کے ٹرائل اور اس کے متعلقہ قواعد و ضوابط اگرچہ طے ہیں لیکن اگر پاکستان اس ویکسین کی آزمائش کے کسی پروگرام میں شامل ہوتا ہے تو یہ پاکستان کے لیے ایک نیا تجربہ ہو گا۔
ان کے بقول پاکستان اس سے پہلے عالمی سطح پر تیار ہونے والی کسی ویکسین کے کلینیکل ٹرائل کا حصہ نہیں رہا ہے۔ لہذٰا یہ اس کے لیے اچھا موقع ہے کہ وہ اس میں شامل ہو۔
ڈاکٹر شوکت علی کہتے ہیں کہ اگرچہ چین میں کرونا وائرس کی ویکسین کی آزمائش کا پہلہ مرحلہ مکمل ہو چکا ہے اور ان کے بقول اب دوسرے مرحلے کے لیے اس ویکسین کو مختلف رضاکاروں کی ضرورت ہو گی، لہذٰا پاکستان بھی اس مرحلے کا حصہ بن سکتا ہے۔
ڈاکٹر شوکت علی کہتے ہیں کہ کسی بھی دوا کی آزمائش کے نتائج فوری طور پرسامنے آ جاتے ہیں لیکن ویکسین کے نتائج سامنے آنے میں وقت لگتا ہے۔
ڈاکٹر شوکت علی کا مزید کہنا ہے کہ چین کے ساتھ ویکسین کی تیار ی یا طبی شعبے میں تعاون پاکستان کے مفاد بھی ہو گا۔
ان کے بقول چین نے دیگر شعبوں کی طرح بائیو ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی نمایاں ترقی کی ہے، لہذٰا پاکستان کو بھی اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔