پاکستان کے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور میں سندھ کے وزیرِ خزانہ کے طور پر سامنے آنے والے ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ پارٹی و عملی سیاست سے دور رہنے کے باوجود متعدد بار اعلیٰ حکومتی عہدوں پر براجمان رہ چکے ہیں۔
لگ بھگ 35 سال پر محیط پیشہ ورانہ زندگی میں حفیظ شیخ پاکستان میں اہم حکومتی ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک عالمی اداروں کے ساتھ کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، ان کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ عالمی مالیاتی بیورو کریسی کو بخوبی سمجھتے ہیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی میں درس و تدریس کے علاوہ وہ دنیا کے 25 ممالک میں عالمی بینک کے مشیر کے طور پر خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ حفیظ شیخ دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں اور حکومتی اداروں کی نجکاری سے متعلق امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔
معاشی ماہرین کے مطابق سن 2000 میں بطور وزیرِ خزانہ سندھ اپنی پہلی حکومتی ذمہ داری میں انہوں نے ٹیکس کی شرح کم کر کے وصولیوں میں اضافہ کیا اور مالیاتی نظم و نسق میں بہتری لائے۔
مشرف دور میں ہی انہیں وزیرِ اعظم کا مشیر برائے نجکاری اور سرمایہ کاری لگایا گیا۔ اپنی اس ذمہ داری کے دوران حفیظ شیخ نے 34 سرکاری کاروباری اداروں کی نجکاری کی جس سے حکومت کو پانچ ارب ڈالر حاصل ہوئے۔
عبد الحفیظ شیخ مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر سینیٹر بھی منتخب ہوئے لیکن 2006ء میں انہوں نے اس وقت کے وزیرِ اعظم شوکت عزیز کی کابینہ کو خیر باد کہہ دیا تھا۔
چار سال تک سیاست سے دور رہنے کے بعد حفیظ شیخ دوبارہ اس وقت سیاسی میدان میں وارد ہوئے جب 2010ء میں اس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے استعفیٰ دے دیا اور پیپلز پارٹی کی قیادت کی نظریں حفیظ شیخ پر ٹہریں۔
انہوں نے سال 2010ء سے 2013ء کے دوران وزارتِ خزانہ کا قلم دان سمبھالا اور سینیٹر بھی منتخب ہوئے۔
ماہرین کے مطابق بطور وزیرِ خزانہ پیپلزپارٹی دور میں حفیظ شیخ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکے تھے۔ ان کے دور میں بجٹ خسارے میں اضافہ جب کہ ٹیکس وصولیوں میں کمی ہوئی اور مہنگائی کی شرح بھی بڑھ گئی تھی۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد وہ دوبارہ بیرونِ ملک منتقل ہوگئے تھے اور اب تقریباً پانچ سال کے بعد وہ مشیرِ خزانہ کی اہم ذمہ داری کے لیے پاکستان آئے ہیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے اسد عمر کی معاشی کارگردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے وزارتِ خزانہ کی ذمہ داری ڈاکٹر حفیظ شیخ کو سونپی ہے جس کا چارج انہوں نے ہفتے کو سنبھال لیا ہے۔
سابق مشیر خزانہ سلمان شاہ اگرچہ اس تبدیلی کو حیران کن گردانتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ حفیظ شیخ کو مشکل ماحول میں مشکل ذمہ داری سونپی گئی ہے اور انہیں پارٹی کے اندر اور باہر سے بھی اختلافات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
سلمان شاہ کے مطابق اگرچہ حفیظ شیخ عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے ان سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں لیکن عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ان کے کام کا تجربہ اچھا نہیں رہا اور پیپلز پارٹی کے اپنے دورِ وزارت میں وہ آئی ایم ایف پروگرام پر عمل در آمد میں ناکام رہے تھے۔
سلمان شاہ کہتے ہیں کہ نئے مشیرِ خزانہ کے لیے کام کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا اور خاص طور پر اس وقت جب ان کے کام کی نگرانی ایک اکنامک ایڈوائزی بورڈ کرے گا جس کی سربراہی جہانگیر ترین کر رہے ہیں۔
سابق سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود کہتے ہیں کہ نئے مشیرِ خزانہ تجربہ کار ماہرِ معیشت ہیں اور حکومتی معاملات سے بھی اجنبی نہیں ہیں۔ لیکن ماحول کو سمجھنے اور نئے حالات اور اہداف کا جائزہ لینے میں انہیں کچھ وقت لگے گا کیوں کہ وہ ایک عرصے کے بعد بیرونِ ملک سے پاکستان واپس آئے ہیں۔
ان کے مطابق حفیظ شیخ اپنے ساتھ کچھ آسانیاں بھی لے کر آئے ہیں اور کچھ اضافی مشکلات کا سامنا بھی انہیں ہوگا۔ ان میں ان کا غیر منتخب ہونا اور حکومتی جماعت کے لوگوں کے باہمی اختلافات کے ماحول میں اپنا کام کرنا جیسے مسائل شامل ہوسکتے ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ 2012ء کے معاشی حالات میں بہت بہتری نہ لاسکنے والے حفیظ شیخ کے سامنے 2019ء میں ماضی سے کہیں زیادہ مشکل اہداف ہیں۔