پاکستان میں عمران خان حکومت کی کابینہ میں تبدیلی کی خبر کو موجودہ حکومت کے لیے ایک مشکل مرحلہ قرار دیا جا رہا ہے، لیکن ان تبدیلیوں کی آخر وجہ کیا ہے، ایسا کیا کچھ ہوا جس کی وجہ سے حکومت کے 8 ماہ میں ہی وزیراعظم عمران خان کو ایسے سخت فیصلے کرنے پڑے۔ اور کئی وزرا کو اپنی کابینہ سے فارغ یا ان کے محکمے تبدیل کرنے پڑے۔ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
اسد عمر
کابینہ میں تبدیلی کی ممکنہ وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو وزارت خزانہ کے سلسلے میں اسد عمر کی جانب سے کیے جانے والے دعوے اور ملک کی ابتر معاشی صورت حال ان کے زوال کا سبب بنی۔
جس وقت اسد عمر نے وزارت سنبھالی اس وقت ڈالر کی قیمت میں مصنوعی کمی کے تمام طریقے ناکام ہو چکے تھے اور روپے کی قدر گر رہی تھی۔ جولائی 2018 میں اس کی قیمت 120 سے 122 روپے تک تھی، پھر اس میں بتدریج کمی ہوتی گئی اور رواں سال اوپن مارکیٹ میں اس کی قیمت 143 روپے تک جا پہنچی۔ ملکی کرنسی کی اس گراوٹ کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا ایک نہ تھمنے والا طوفان شروع ہوا جو اب بھی جاری ہے۔
اسد عمر پر دو مرتبہ منی بجٹ لانے، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سے فنڈز ملنے کے باوجود معیشت کی سمت درست نہ ہونے اور وسائل جمع کرنے میں ناکامی کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ اس میں آخری کیل ایمنسٹی سکیم ثابت ہوئی جسے کابینہ اجلاس میں بیشتر ارکان نے مسترد کر دیا۔ وزیراعظم عمران خان بھی اس معاملے کا دفاع نہ کر سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایف بی آر کی ناقص کارکردگی بھی سب کے سامنے تھی جو بجٹ قریب آنے کے باوجود اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔
وفاقی کابینہ کی اندرونی صورت حال سے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے عوامی دباؤ سے پریشان تھے اور بارہا اس کا اسد عمر سے تذکرہ بھی کیا گیا، لیکن شاید اسد عمر کے پاس اس کا کوئی حل موجود نہیں تھا جس کے بعد اسد عمر نے وزیراعظم کی بات مان کر گھر جانے میں ہی عافیت سمجھی۔
فواد چوہدری
وزارتوں کی تبدیلی میں دوسرا اہم نام فواد چوہدری کا ہے جن کے متعلق ممکنہ وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ پاکستان ٹیلی وژن کے ایم ڈی ارشدخان بھی تھے۔ ارشد خان کو عمران خان کے کہنے پر تعینات کیا گیا لیکن فواد چوہدری انہیں اپنے عہدے سے ہٹانا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے پی ٹی وی یونین کا استعمال کیا اور جہاں کہیں ایم ڈی کسی اجلاس میں شریک ہوتے، پی ٹی وی یونین کے ارکان اجتجاج کرنے پہنچ جاتے۔ انتہائی حیرت کی بات یہ تھی کہ اطلاعات کے وزیر اپنی ہی وزارت کے ماتحت ادارے کے اجتجاج پر مسائل حل کرنے کی بجائے پی ٹی وی کے ایم ڈی کو برا بھلا کہتے رہے۔ فواد چوہدری کے اصرار پر عمران خان نے ارشد خان کو تو فارغ کر دیا لیکن اس کے ساتھ فواد چوہدری بھی لپیٹ میں آ گئے۔
فواد سے اطلاعات کی وزارت لینے کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ حکومت کا دفاع کرتے ہوئے اور اپوزیشن پر تنقید کرتے وقت فواد چوہدری کا لب و لہجہ اتنا سخت ہو جاتا تھا جو بعض حکومتی عمائدین کے مطابق وہ سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن جب اس سلسلے میں فواد چوہدری کو سمجھانے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے وزیراعظم کے قریبی معاون نعیم الحق پر ہی نکتہ چینی شروع کر دی جس کے نتیجے میں کئی دن تک ٹوئٹر پر جنگ جاری رہی۔
غلام سرور خان
ایک اور وزیر غلام سرور خان ہیں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ حالیہ دنوں میں گیس کے ہوشربا بلوں پر تحقیقاتی رپورٹ نے وزیر پٹرولیم کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا۔ اس معاملے پر وزیراعظم بھی سخت دباؤ میں تھے، جس کے لیے ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی۔
فواد چوہدری نے بھی اس سلسلے میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ اس میں بڑے بڑے نام ملوث ہیں، لیکن کوئی نام تو سامنے نہیں آ سکا، البتہ غلام سرور خان کو وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ غلام سرور کے متعلق یہ اطلاعات ہیں کہ انہوں نے ایوی ایشن ڈویژن کی وزارت لینے سے بھی انکار کر دیا ہے۔
عامر کیانی
ایک اور اہم نام وزیر صحت عامر کیانی کا ہے۔ پی ٹی آئی میں عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہونے والے عامر کیانی کو کسی اور وزارت کی پیش کش بھی نہیں کی گئی اور انہیں سیدھا سیدھا وزارت سے برطرف کر دیا گیا۔
اس سخت فیصلے کے پیچھے مالی معاملات کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ عامر کیانی کے وزیر صحت بننے کے بعد 3 مرتبہ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے باقاعدہ ایس آر اوز جاری کیے گئے۔ ان ایس آر اوز کی وجہ سے مختلف ادویات کی قیمتوں میں 300 فیصد تک اضافہ ہوا جس سے عوام میں بے چینی پھیل گئی۔
کہا جا رہا ہے کہ اس اضافے میں فارما انڈسٹری کے مافیاز کا ہاتھ تھا اور عامر کیانی کی مبینہ مدد سے وہ ادویات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ عمران خان کی طرف خفگی کا پیغام ملنے کے بعد ایف آئی اے کی مدد سے گراں فروشوں کے خلاف چھاپوں کا سلسلہ شروع ہوا، مگر شاید تاخیر ہو چکی تھی اور شاید عمران خان انہیں گھر بھیجنے کا اپنا فیصلہ کر چکے تھے۔
شہریار آفریدی
وزیرمملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی سیاست میں نووارد ہیں اور انہوں نے پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے ہی سیاست شروع کی۔ لیکن ناتجربہ کاری ان کے آڑے آئی۔ اگرچہ عمران خان نے وزارت داخلہ کا قلم دان اپنے پاس رکھا تھا لیکن انہیں وزیر مملکت بنا کر مکمل اختیارات سونپ دیے تھے۔
اس دوران آفریدی مختلف الزامات کا سامنا کرتے رہے۔ ان پر پہلا الزام گھر کی تزئین و آرائش سرکاری خرچ پر کروانے کا الزام لگا جس کی ایف آئی اے نے تحقیقات بھی کیں۔ اس کے بعد ان کے بھانجے سے منشیات برآمدگی کی ایف آئی آر اور پھر منشیات فروشی کے ایک ملزم کے ساتھ تصاویر کا سکینڈل سامنے آیا، جس کی انہوں نے تردید بھی کی۔
وزیر بننے کے بعد کالعدم تنظیم جماعت الدعوۃ کے رہنماؤں کے ساتھ فوٹیج نے بھی آفریدی کی مشکلات میں اضافہ کیا، جس کے بعد بلاول بھٹو زرداری اور اپوزیشن کے دیگر قائدین ان پر فوٹیج کے ساتھ تنقید کرتے رہے۔ انہیں کابینہ سے مکمل طور پر تو نہیں البتہ وزارت داخلہ سے نکال کر وزیر مملکت برائے سیفران لگا دیا گیا ہے۔