پاکستان کے وفاقی وزیرِ خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ ان کی حکومت 23 جنوری کو ضمنی بجٹ کے طور پر فنانس بل اسمبلی میں متعارف کرائے گی۔
ہفتے کو کراچی چیمبر آف کامرس میں تاجروں سے ملاقات اور میڈیا سے گفتگو میں اسد عمر نے حکومت کی معاشی پالیسیوں کی وضاحت کی اور کہا کہ حکومت کا منی بجٹ پیش کرنے کا مقصد ریونیو بڑھانا نہیں بلکہ سرمایہ کاری بڑھانا اور کاروباری طبقے پر ٹیکس کا بوجھ کم کرنا ہے۔
اسد عمر نے بتایا کہ ضمنی بجٹ میں پہلے سے منظور کیے گئے بجٹ میں موجود بعض خامیوں کو دور کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ مالی سال 19-2018 کا بجٹ مسلم لیگ کی سابق حکومت نے پیش کیا تھا۔
تاجروں سے خطاب میں اسد عمر نے کہا کہ ٹیکس اصلاحات حکومت کی اولین ترجیح ہے جس کے لیے بنیادی کام کیا جارہا ہے۔
تاہم ان کے بقول ٹیکس سسٹم میں ہر تبدیلی سے قبل اس کی منظوری پارلیمنٹ سے لی جائے گی۔
وفاقی وزیر نے تاجروں کو بتایا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے اسٹریچوری ریگولیٹری آرڈرز (ایس آر اوز) جاری کرنے کے اختیارات ختم کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ ملک میں سرمایہ کاری میں کمی واقع ہو رہی ہے اور درآمدات زیادہ جب کہ برآمدات پہلے ہی کم ہیں۔ لیکن انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی کارکردگی گزشتہ حکومتوں کے ابتدائی پانچ ماہ کی کارکرگی سے کہیں بہتر ہے۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں علاقائی تجارت نہ ہونے کے برابر ہے اور بھارت اور افغانستان سے تعلقات بہتر نہ ہونے کی وجہ سے خطے میں تجارت بڑھ نہ سکی۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ان کی حکومت بھارت کے ساتھ بہتر تجارتی تعلقات چاہتی ہے۔ تحریکِ انصاف کی حکومت نے اپنے منشور میں معاشی تعلقات کے قیام کو خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول رکھا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب اور ترکی میں سرمایہ کاری پر بھی بات ہوئی ہے۔
وفاقی وزیر اسد عمر کے منی بجٹ کے حوالے سے کیے گئے دعووں پر بات کرتے ہوئے معروف تاجر اور کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق صدر سراج قاسم تیلی کا کہنا ہے کہ حکومت کو آئے ہوئے ابھی پانچ ماہ ہوئے ہیں، معیشت انتہائی دگرگوں ہے لیکن ہمیں نتائج کے لیے انتظار کرنا ہوگا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سراج قاسم تیلی کا کہنا تھا کہ اسد عمر نے انہیں یقین دلایا ہے کہ منی بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا یا اگر لگایا بھی گیا تو انتہائی کم ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ گیس کے بحران، ٹیکسز کی بھرمار اور انفراسٹرکچر کی کمی کے باعث تاجر برادری کو بزنس کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن ان کے بقول تاجر پھر بھی کام کر رہے ہیں اور انہیں نتائج کا انتظار ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی معیشت اس وقت ایک بحران کی کیفیت کا شکار ہے۔ ملک کا تجارتی خسارہ 40 ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہے جب کہ پاکستانی کرنسی کی قیمت میں بھی امریکی ڈالر کے مقابلے میں گزشتہ سال 15 فی صد کمی آئی ہے۔
لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ وہ معاشی صورتِ حال کی بہتری کے لیے کام کر رہی ہے۔