پاکستان کی وفاقی کابینہ کے مسلسل دوسرے اجلاس میں بھی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم منظور نہیں ہو سکی اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ سکیم کے بعض نکات میں ترمیم کے بعد اسے بحث کے لیے دوبارہ کابینہ میں پیش کیا جائے گا۔ حکومت مجوزہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے ٹیکس وصولی کے اہداف حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن وزرا کا کہنا ہے کہ ایمنسٹی اسکیم تحریک انصاف کے منشور کے خلاف ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت ایمنسٹی اسکیم پر مشاورت کے لیے خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں کابینہ اراکین نے اس اسکیم کے مختلف پہلؤں پر غور کیا۔
تاہم کابینہ کے بعض اراکین کے تحفظات کے باعث یہ اسکیم آج دوسرے روز بھی منظور نہیں ہو سکی۔ کابینہ اراکین نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم لانے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسکیم تحریک انصاف کے منشور کے خلاف ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کابینہ اجلاس کے بعد ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا کہ کابینہ نے ایمنسٹی اسکیم کے تمام پہلوؤں پر بحث کی اور اس دوران تمام آپشنز زیر بحث آئے۔ انہوں نے کہا کہ اسکیم میں چند چیزوں کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے لہٰذا اس معاملے کو کابینہ کے اگلے اجلاس تک مؤخر کر دیا گیا ہے۔
اس سے قبل کابینہ کے گزشتہ روز کے اجلاس میں اس اسکیم کو مزید بحث کے لیے بدھ تک ملتوی کر دیا گیا تھا۔
ایمنسٹی اسکیم کا مقصد
حکومت بے نامی جائیدادوں اور بینک اکاؤنٹس کے خلاف قانون سازی پر عمل درآمد کرنے جا رہی ہے اور اس سے قبل بے نامی جائیدادوں کو ظاہر کرنے کے لیے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم لانا چاہتی ہے۔
اسکیم کے ذریعے ٹیکس نادہندگان، معمولی ٹیکس کی ادائیگی سے ملکی و غیر ملکی اثاثے ظاہر کر سکیں گے۔ بے نامی جائیدادوں اور بینک اکاؤنٹس کو ظاہر کرنے کی یہ سرکاری اسکیم ’ٹیکس اصلاحات پیکیج‘ کا حصہ ہے۔
وزارت خزانہ کا خیال ہے کہ ایمنسٹی اسکیم سے ٹیکس کے اہداف پورا کرنے میں مدد ملے گی۔
ایمنسٹی اسکیم کے خدوخال
ایمنسٹی اسکیم کے حاصل شدہ مسودہ کے مطابق وزارت خزانہ نے وفاقی کابینہ کو تجویز دی ہے کہ غیر ملکی اثاثوں کو ظاہر کرنے پر پانچ فیصد جب کہ ملکی بے نامی جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹس ظاہر کرنے پر دس فیصد ٹیکس عائد کیا جائے۔
دستاویزات کے مطابق اس اسکیم سے سیاست دان فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے اور نہ ہی وہ لوگ جن پر منی لانڈرنگ (غیر قانونی ذرائع سے رقوم بیرون ملک بجھوانے) کے الزامات ہیں۔ تاہم بے نامی بینک اکاؤنٹس رکھنے والے اس اسکیم کے ذریعے اپنے اثاثہ جات ظاہر کر سکیں گے اور انہیں ذرائع آمدن بتانے کی چھوٹ ہو گی۔
وزیر خزانہ اسد عمر نے بھی گزشتہ روز صحافیوں سے بات کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ اثاثہ جات پر ایمنسٹی اسکیم سے صرف کاروباری افراد ہی فائدہ اٹھا سکیں گے۔
خیال رہے کہ حال ہی میں حکومت نے بےنامی بینک اکاؤنٹس رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کے لئے قانون سازی کے بعد قواعد و ضوابط کی منظوری دی ہے۔
حکمران جماعت تحریک انصاف نے پچھلے دور حکومت میں لائی جانے والی ایمنسٹی اسکیم کی بھرپور مخالفت کی تھی۔
ایمنسٹی کے لیے آرڈیننس کیوں
ٹیکس ایمنسٹی اسکیم پر حزب اختلاف کے رہنما تنقید کر رہے ہیں اور اسے پارلیمنٹ کی منظوری کی بجائے صدارتی حکم نامے کے ذریعے لانے پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت ٹیکس ایمنسٹی اسکیم لاتی ہے تو کرپشن کے خلاف اس کے دعوے ختم ہو جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اسکیم حکومتی جماعت کے رہنماؤں کے لیے کالا دھن سفید کرنے کا ذریعہ ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو صدارتی حکم نامے کے ذریعے نافذ کرنے کے خلاف اسمبلی میں قرارداد لانے کا اعلان کیا ہے۔
تاہم حکومتی سینیٹر محسن عزیز معیشت کو دستاویزی شکل میں لانے کے لیے اس اسکیم کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بے نامی جائیدادوں کے قانون پر عمل درآمد سے پہلے اس اسکیم کا لانا کاروباری طبقے کا مطالبہ تھا۔
اس سے قبل حکومت نے ایمنسٹی اسکیم کے سلسلے میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے 15 اپریل کے طے شدہ اجلاس ملتوی کر دیے تھے جو اب 25 اپریل کو بلائے گئے ہیں۔
گزشتہ اسکیم سے 120 ارب کی آمدن
پاکستان میں حکومتیں ماضی میں بھی ٹیکس ایمسٹی اسکیم جاری کرتی رہی ہیں اور پچھلی حکومت کے دور میں تین ٹیکس ایمسٹی اسکیم جاری کی گئیں جس میں جون 2018 کو ختم ہونے والی بے نامی جائیدادوں کو قانونی قرار دینے کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے حکومت کو 120 ارب روپے کی آمدنی ہوئی تھی۔
اسی طرح 17-2016 کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے تحت بیرون ملک اثاثے ظاہر کرنے پر 4 فیصد اور وہ اثاثے واپس ملک میں منتقل کرنے پر صرف 2 فیصد ٹیکس ادا کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس اسکیم سے پاکستان میں 81 ہزار افراد نے فائدہ اٹھایا تھا۔
بیرونی ملکوں سے لائے گئے قیدیوں کو سزائے موت سے استثنیٰ
وفاقی کابینہ نے اپنے گزشتہ روز کے اجلاس میں تعزیرات پاکستان میں ترمیم کا فیصلہ کرتے ہوئے بیرونی ممالک سے لائے جانے والے قیدیوں کی سزائے موت ختم کرنے کا اعلان کیا۔
وزیراطلاعات فواد چودھری نے فیصلے کے بارے میں بتایا کہ ملک میں سزائے موت کے قانون کے باعث یورپی یونین سمیت بہت سے ممالک پاکستانی قیدی واپس نہیں بجھواتے۔ اس لیے اب سزائے موت کے قانون میں ترمیم سے ان ممالک سے ملزمان کو واپس لایا جا سکے گا۔