رسائی کے لنکس

جوہری مذاکرات سے پہلے ایران امریکہ میں قید اپنے شہریوں کی رہائی کا خواہاں


ایرانی حکومت کے ترجمان علی ربیعی
ایرانی حکومت کے ترجمان علی ربیعی

ایران نے منگل کے روز اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ کی قید میں موجود اس کے تمام شہریوں کو رہائی دی جائے۔ ایران کا یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب ویانا میں ایران اور امریکہ کے مابین بالواسطہ مذاکرات ہو رہے ہیں، جن کا مقصد ایران، امریکہ اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری سمجھوتے کو دوبارہ فعال کرنا ہے۔

ایران کی کابینہ کے ترجمان علی ربیعی نے اس بات کا عندیہ بھی دیا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے مزید تبادلے کے امکانات موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’قیدیوں کے تبادلے کا معاملہ ہمیشہ ایجنڈے کا حصہ رہا ہے‘‘۔ بقول ان کے، انسانی ہمدردی کے نقطہ نظر سے، قیدیوں کو رہائی ملنی چاہیے۔

ربیعی نے اس بات کی تفصیل نہیں بتائی کہ امریکہ میں ایرانی قیدیوں کی تعداد کیا ہے۔ تاہم، انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کے نام جاری کیے جانے کی صورت میں انہیں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ ’’ایران میں قید امریکیوں کے مقابلے میں ایرانی قیدیوں کی تعداد زیادہ ہے‘‘۔

2019 میں ہونے والے قیدیوں کے تبادلے کے دوران پرنسٹن کے شہر سے ایک چینی نژاد امریکی اسکالر کو رہا کیا گیا تھا، جو جاسوسی کے الزامات پر تین سال سے قید کاٹ رہا تھا۔ اُس وقت ایران نے کہا تھا کہ تقریباً 20 ایرانی شہری امریکی قید میں ہیں۔

ایران چند مرتبہ اپنے قیدیوں کی رہائی کے عوض امریکی قیدیوں کی رہائی کی پیش کش کر چکا ہے۔ جب قیدیوں کے تبادلے کی صورت پیدا ہوتی ہے تو یہ بات ایران اور امریکہ کے مابین شاذ و نادر نوعیت کی سفارتی پیش رفت خیال کی جاتی ہے۔

منگل کے روز ربیعی نے کہا کہ ایرانی عدلیہ نے بھی قیدیوں کے تبادلے کے لیے ’’تیار ہونے‘‘ کا عندیہ دیا ہے۔ ایرانی اہلکاروں کی جانب سے دو ہفتوں کے دوران قیدیوں کی ممکنہ رہائی سے متعلق سامنے آںے والا یہ دوسرا بیان ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان، سعید خطیب زادے نے گزشتہ ہفتے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ایران چاہتا ہے کہ ویانا میں جاری مذاکرات کے ایک جُزو کے طور پر قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے۔ سال 2015ء میں عالمی طاقتوں کے ساتھ نیوکلیئر سمجھوتا طے ہونے کے دوران بھی قیدیوں کا تبادلہ کیا گیا تھا۔

حالیہ دنوں کے دوران ایرانی ذرائع ابلاغ نے امریکی قید میں بند سات ایرانیوں کے نام ظاہر کیے تھے، جب کہ امریکہ باقاعدگی کے ساتھ ایرانی قید میں بند امریکی شہریوں کی رہائی کا مطالبہ کرتا رہا ہے، جن میں سیامک اور باقر نمازی کے نام بھی شامل ہیں، جنہیں جاسوسی کے الزامات پر 10 برس کی سزا سنائی گئی ہے۔

چھالیس سالہ سیامک نمازی ایک کاروباری شخص ہیں جنہوں نے ایران اور مغرب کے درمیان قریبی تعلقات استوار کرنے کے لیے کوششیں کیں، جنہیں 2015 میں گرفتار کیا گیا۔ ان کے 81 برس کے والد، باقر کو فروری 2016 میں گرفتار کیا گیا۔ وہ اپنے بیٹے کو قید میں ڈالنے کی خبر سن کر ایران گئے تھے۔ باقر یونیسیف کے ایک سابق نمائندے رہے ہیں، جو ایران کے حمایت یافتہ شاہ کے عہد میں ایران کے تیل سے مالا مال صوبہ خوزستان میں گورنر کے طور پر خدمات بجا لاچکے ہیں۔

ماحولیات کے شعبے سے وابستہ، مراد تہباز بھی امریکی شہری ہیں جنہیں ایران میں قید رکھا گیا ہے۔ وہ ایرانی ہونے کے علاوہ برطانیہ اور امریکہ کے شہری بھی ہیں جنہیں 10 برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

ساتھ ہی ایران میں مغربی ملکوں کے متعدد شہری قید ہیں، جن میں نازنیں زغری ریٹکلف بھی شامل ہیں، جو برطانوی نژاد ایرانی ہیں۔ جاسوسی کے الزامات پر وہ پانچ سال کی سزا کاٹ چکی ہیں۔ اب انہیں مزید ایک برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ ''نظام حکومت کے خلاف پروپیگنڈا میں ملوث ہیں''؛ اور یہ کہ وہ 2009ء میں لندن میں ایرانی سفارت خانے کے سامنے ہونے والے احتجاج میں شریک تھیں۔

ایران ایک سے زائد شہریت کے معاملے کو تسلیم نہیں کرتا، جس سے مراد یہ ہے کہ زیر حراست افراد کو سفارتی اعانت فراہم نہیں کی جاسکتی۔

ویانا مذاکرات کے لیے امریکہ مذاکراتی میز پر شریک نہیں ہوا، لیکن دیگر عالمی طاقتوں کے نمائندوں کے ہمراہ ایک امریکی وفد آسٹریا کے دارالحکومت میں موجود رہا ہے، جہاں ایرانی وفد بھی موجود ہے۔ حالیہ دنوں میں ایران میں نتانز کی جوہری تنصیب پر تخریب کاری کا واقعہ بھی پیش آیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG