ڈیموکریٹ اور ریپبلیکن امیدوار 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات کے پرائمری مرحلے میں رونمائی کے لیے ہفتے کے روز ریاستِ آئیووا پہنچے۔ اُنھیں توقع ہے کہ وہ شرکا کے دل جیتنے میں کامیاب ہوں گے، جہاں کی وسط مغربی ریاست کے فارمس پر اس وقت ایک میلے کا سماں ہے، جس میں تمغے جیتنے والے مویشی، ہنرمندوں کی نمایاں تخلیقات کی نمائش اور لذیذ کھانے پکانے کے نسخے بھی دلوں کو گرما رہے ہیں۔
امیدوار، ڈونالڈ ٹرمپ، جو ریئل اسٹیٹ اور ٹیلیویژن کی معروف شخصیت ہیں، وہ ریپبلیکن امیدواروں میں پیش پیش ہیں۔ وہ اپنے نجی ہیلی کاپٹر میں آئیووا پہنچے۔
ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی ہیلری کلنٹن نمایاں ہیں، جن کے آگے پیچھے سکیورٹی والے اور عملہ ہے، اور جب وہ آئیووا پہنچیں تو اخباری نمائندوں نے اُنھیں گھیرے میں لے لیا۔ عین اُسی وقت آئیووا سے تعلق رکھنے والے سابق امریکی سینیٹر ٹام ہارکن کی آمد ہوئی، جنھوں نے ہیلری کی نامزدگی کی توثیق کی ہے۔ ہیلری نے پکے ہوئے ’پورک چوپ‘ کا نمونہ چکھا، جس کے بعد وہ اور اُن کا قافلہ تقریب سے واپس روانہ ہوا۔
امریکی سینیٹر، برنی سینڈز، دوسرے ڈیموکریٹک امیدوار ہیں، جو بھی اسی دوران آئیووا ہی میں موجود تھے۔
جلدباز اور صاف گو، ٹرمپ نے موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا اور ہیلری کلنٹن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ، ’آپ تاریخ کی بدترین وزیر خارجہ تھیں‘۔ اُنھوں نے امی گریشن کے معاملات پر فوری اقدام کا وعدہ کیا جو امریکی عوام اور سیاسی انتظامیہ کے لیے اہمیت کا باعث معاملہ ہے۔
اپنی متنازع تجویز کے حوالے سے کہ جیتنے کے بعد میکسیکو کے ساتھ امریکی سرحد پر مورچہ بندی کریں گے، اُنھوں نے کہا کہ ’امی گریشن اور غیرقانونی پناہ گزینوں کے معاملے پر اقدام لینے پر آپ مجھ سے محبت کرنے پر مجبور ہوں گے۔ ہم ایک دیوار بنائیں گے۔ یہ ایسی دیوار ہوگی جسے عبور نہیں کیا جاسکے گا‘۔
اُنھوں نے دفاعی اخراجات میں اضافے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکہ اتنا پختہ اور مضبوط، اور اتنا تیز ہونا چاہیئے کہ کسی کو ہمارے ساتھ الجھنے کی مجال نہ ہو‘۔
جمعے کے روز ہیلری کلنٹن اور سینڈرز نے بھی اپنے ریپبلیکن مخالفین کی خوب تضحیک کی، یہ کہتے ہوئے کہ ہم ہی دراصل صحیح امیدوار ہیں ’جنھیں تمام امریکیوں کو معاشی اور سماجی انصاف فراہم کرنے کا ہنر آتا ہے‘۔
ٹرمپ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے، ہیلری نے کہا کہ، ’ہمیں پتا ہے کہ اِن دِنوں زیادہ تر دھیان ایک رنگین مزاج (ریپبلیکن) کی جانب مبذول ہے، جو پیش پیش ہیں‘۔
تاہم، اُنھوں نے شرکا سے کہا کہ ریپبلیکن پارٹی کے دیگر امیدواروں کے بیانات کو نظرانداز نہ کریں، جن میں فلوریڈا کے ساتھ گورنر جیب بش اور امریکی سینیٹر مارکو روبیو شامل ہیں۔
ہیلری نے کہا کہ، ’یہ ایک سرکس ہے، جس سے آپ مایوس نہ ہوں۔ اگر آپ اُن کی پالیسیوں کی جانب دیکھیں گے، تو اُن میں زیادہ تر امیدوار ٹرمپ ہی کی طرح کے ہیں، بس اُن میں مزاج کا بھڑکیلا پن ذرہ کم ہے‘۔
اس موقع پر، 2000 سے زائد شرکا کی جانب سے سینڈرز کو بھی خاصی پذرائی ملی۔ بقول اُن کے، ’امریکہ میں نسلی امتیاز کے خاتمے اور ہمارے فوجداری انصاف کے بے ہنگم نظام کی اصلاح کے لیے مجھ سے زیادہ تگ و دو کرنے والا کوئی اور نہ ہوگا‘۔