وزیرِ اعظم نریندر مودی کی قیادت میں قائم بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت میں شامل 36 وزیروں نے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے تقریباً ایک ہفتے کے دورے کا آغاز کر دیا ہے۔
بھارتی حکومت کے ایک ترجمان کے مطابق اس دورے کا مقصد اُن پالیسیوں اور اقدامات کے بارے میں عوام تک صحیح معلومات پہنچانا ہے جو حکومت نے گزشتہ ساڑھے پانچ ماہ کے دوران وفاق کے زیرِ انتظام اس علاقے کی مجموعی تعمیر و ترقی اور عوام کی روزمرہ زندگی میں بہتری لانے کے لیے کیے ہیں۔
واضح رہے بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019 کو اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی نیم خود مُختاری کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس کے ساتھ ہی متنازع ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقوں میں بدل دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی سابقہ ریاست میں گرفتاریوں، قدغنوں اور بندشوں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں پیدا شدہ مخدوش صورتِ حال میں سب سے زیادہ مسلم اکثریتی وادئ کشمیر متاثر ہوئی ہے۔
پانچ وزراء وادی کشمیر کے صرف تین اضلاع کا دورہ کر رہے ہیں
لیکن وفاق کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کا دورہ کرنے والی وزراء کی ٹیم میں شامل صرف پانچ ارکان ہی وادئ کشمیر آ رہے ہیں اور وہ بھی اس کے 10 میں سے صرف تین اضلاع میں۔ یہ وفاقی وزیر ہیں مختار عباس نقوی، روی شنکر پرساد، رمیش پوکھریال نشانک، جے کشن ریڈی اور شری پد نائیک جو 20 اور 24 جنوری کے دوران سرینگر، بارہمولہ اور گاندربل اضلاع کا دورہ کریں گھ۔ وزرا کی ٹیم میں شامل کوئی بھی وزیر وادی کے باقی ماندہ اضلاع یعنی کپوارہ، بانڈی پور، بڈگام، پُلوامہ، شوپیان، کُلگام یا اننت ناگ نہیں جائے گا۔ اسی طرح ٹیم کی طرف سے جموں خطے کے دس میں سے دو اضلاع ڈوڈہ اور کشتوار کو بھی نظر انداز کیا جارہا ہے۔
5 اگست کے متنازع اقدامات اور عوامی ردِ عمل
مبصرین کا کہنا ہے کہ غالباً وفاقی حکومت کی طرف سے 5 اگست 2019 کو کئے گئے متنازع اقدامات کے خلاف ان دو اضلاع اور وادئ کشمیر کے بیشتر علاقوں میں عوامی سطح پر پائے جانے والے غم و غصے نے وزرا کی ٹیم کے دورے کا اہتمام کرنے والوں کو یہ اضلاع دورے میں شامل کرنے سے باز رکھا ہے۔ نیز ان علاقوں میں جنوبی کشمیر کے چار اضلاع، اننت ناگ، کُلگام، شوپیان اور پُلوامہ بھی شامل ہیں جہاں 8 جولائی 2016 کو معروف عسکری کمانڈر برہان مظفر وانی کی ہلاکت کے بعد سب سے زیادہ تشدد کے واقعات پیش آئے ہیں۔ جموں و کشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں سے جاری شورش کو دبانے پر مامور حفاظتی عہدیدار جنوبی کشمیر کو حفاظتی لحاظ سے سب سے زیادہ حساس قرار دیتے ہیں۔
وزرا کی ٹیم 60 اجتماعات سے خطاب کرے گی
بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے چیف سیکرٹری بی وی آر سبھرامنیم نے بتایا ہے کہ وفاق کے زیرِ کنٹرول علاقے کے "وسیع" دورے کے دوران وزراء تقریباً 60 اجتماعات سے خطاب اور عوام کے ساتھ تبادلہء خیالات کریں گے۔ اس کے علاوہ وہ کئی تعمیری منصوبوں کا افتتاح کریں گے اور عوامی فلاح و بہہود کے کاموں کا سنگِ بنیاد رکھیں گے۔ یہ دورے بھارت کی وفاقی وزارتِ داخلہ کے تعاون سے ترتیب دیئے گئے ہیں۔
سبھرامنیم نے کہا، " اس دورے میں وفاقی وزراء لوگوں کو اُن اسکیموں اور پراجیکٹس کے بارے میں بتائیں گے جن پر اُن کی وزارتوں کی طرف سے عمل درآمد ہو چکا ہے یا ہونے والا ہے۔ عوامی رابطے کے اس پروگرام کے تحت آنے والے پانچِ موضوعات اُس ترقی کا احاطہ کرتے ہیں جو جون 2018 میں جموں و کشمیر میں صدارتی راج کے نفاذ اور پھر 5 اگست 2019 کو ریاست کو وفاق کے دو کنٹرول والے علاقوں میں تقسیم کرنے کے بعد مشاہدے میں آئی ہے۔ اس میں ان 55 اسکیمیوں پر عمل درآمد بھی شامل ہے جن سے جموں و کشمیر کے لوگوں کو براہِ راست فائدہ حاصل ہوا ہے یا ہو گا۔ اس کے علاوہ لوگوں کو پرائم منسٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت ترقیاتی پروگراموں، اچھی انتظامیہ کی فراہمی، قانون کی حکمرانی، بے روزگاری کے خاتمے اور معیشت کو بہتری کے لیے کئے گئے اہم اقدامات کے بارے میں بتانا بھی وزراء کےمشن کا حصہ ہے"۔
کانگریس کی نکتہ چینی
بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس نے وفاقی وزراء کے اس دورے کا اہتمام کرنے پر نریندر مودی حکومت پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔ اس نے استفسار کیا ہے کہ اگر حکومت کا یہ دعویٰ درست ہے کہ جموں و کشمیر میں صورتِ حال اور ہر ایک چیز "معمول کے مطابق" ہیں تو وہاں "اشتہاری مہم چلانے والوں" کو بھیجنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ اپوزیشن کے لیڈروں کو علاقے میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ کانگریس نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے یہ بھی کہا، "یہ پہلی ایسی حکومت ہے جو پہلے قوانین پاس کرتی ہے اور اس کے بعد ہی ان کے لیے عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے"۔
کانگریس نے ایک ٹویٹ میں کہا، " بی جے پی حکومت نے کشمیروں کے سامنے دفعہ 370 کی منسوخی کے فائدے بیان کرنے کے لیے ایک اور اشتہاری مہم کے لیے وقت چنا ہے۔ یہ پہلی حکومت ہے جو قوانین کو پہلے پاس کرتی ہے اور پھر ان کے لیے عوام سے حمایت طلب کرتی ہے۔ حزبِ اختلاف کے قائدین کو کب کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دی جائے گی؟ "
پارٹی کے ایک سینئر لیڈر کپل سِبل نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا "امیت شاہ (بھارتی وزیرِ داخلہ) کہتے ہیں کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ اگر ایسا ہے تو 36 ڈھنڈورچیوں کو کشمیر بھیجنے کی کیا ضرورت ہے۔ ایسے لوگوں کو وہاں کیوں نہ بھیجا جائے جو اشتہاری مہم کا حصہ نہیں ہیں اور ان کے ذریعے وہاں پائی جانے والی حقیقی صورتِ حال معلوم کی جائے؟"
'36 وزرا کا دورہ گھبراہٹ کی علامت ہے'
کانگریس کے ترجمان منیش تیواری نے ٹویٹر پر لکھا " 36 وزراء کو 6 دن کے لیے جموں و کشمیر میں گھمانا حالات کے معمول پر آنے کی نہیں بلکہ گھبراہٹ کی علامت ہے۔ دفعہ 370 (جس کے تحت جموں و کشمیر کو آئینی نیم خود مختاری حاصل تھی) کو منسوخ کرنا ایک حماقت تھی۔ اب کوئی اضطراری عمل کام نہیں آئے گا"۔
ایک اور سرکردہ کانگریس لیڈر اور بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے ایک سابق وزیرِ اعلیٰ غلام نبی آزاد نے کہا ہے کہ وفاقی وزرا کو سابقہ ریاست میں بھیج کر مودی حکومت نے اس کی آئینی نیم خود مختاری کو ختم کرنے اور اسے دو حصوں میں تقسیم کر کے براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے بنانے کے اقدام کے بعد وہاں پائی جانے والے صورتِ حال کے بارے میں "جھوٹ پھیلانے کی تیسری کوشش" کی ہے۔
وزرا کو سیاسی بیان بازی سے پرہیز کی ہداہت
بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے جموں و کشمیر کا دورہ کرنے والے وزراء سے کہا ہے کہ وہ علاقے میں اپنے قیام کے دوران سیاسی بیان بازی نہ کریں بلکہ تعمیر و ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے کاموں پر ہی بات کریں۔ جمعے کو نئی دہلی میں اپنی کابینہ کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے کہا وہ عوامی رابطہ مہم کو "کھوئے ہوئے وقت کی بازیابی" کے لیے استعمال کریں۔
انہوں نے وزراء سے یہ بھی کہا کہ دیہی علاقوں کے دوروں کے اختتام پر وہ وہیں رات گزاریں اور سرینگر یا جموں نہ جائیں۔ ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق انہوں نے وزراء سے کہا کہ ان کے جموں و کشمیر کے دورے کو سیاسی رنگ میں نہ رنگا جائے، بلکہ اس کا مقصد لوگوں بالخصوص نوجوانوں، اساتذہ اور سرکاری افسراں کے ساتھ سلسلہ جنبانی ہو تاکہ ان کے دل و دماغ جیتنے میں مدد ملے۔