امریکہ کی نائب معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیائی امور ایلس ویلز نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سیاست دانوں اور عام شہریوں کی گرفتاری اور انٹرنیٹ کی بندش پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ایلس ویلز کا کہنا ہے کہ وہ وادی میں صورت حال کے معمول پر آنے کی منتظر ہیں۔
امریکی سفارت کار کے بقول، "وہ 15 جنوری کو بھارت کے تین روزہ دورے پر آ رہی ہیں۔"
اُن کے دورے سے قبل اس بیان کو تجزیہ کار کافی اہمیت دے رہے ہیں۔
ایلس ویلز نے مزید کہا کہ بھارت میں امریکی سفیر اور دیگر غیر ملکی سفارت کاروں کے جموں و کشمیر کے حالیہ دورے پر ہماری گہری نظر ہے۔
امریکی سفیر کینتھ جسٹر ان 16 غیر ملکی سفارت کاروں کے وفد میں شامل تھے جو صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے دو روزہ دورے پر جمعرات کو سری نگر پہنچا تھا۔
ایک سینئر تجزیہ کار اور کشمیر امور کے ماہر شیخ منظور احمد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دورۂ بھارت سے قبل ایلس ویلز کا بیان بہت اہمیت کا حامل ہے۔
اُن کے مطابق جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد سے ہی امریکہ صورت حال پر اظہار تشویش کرتا رہا ہے۔
شیخ منظور احمد نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ، امریکی اہلکار، وزارت خارجہ اور دوسروں کی جانب سے یہی مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ بھارت باہمی مذاکرات سے اس مسئلے کو حل کرے۔ انٹرنیٹ پر پابندی ختم کی جائے اور جن لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے ان کی رہائی ممکن بنائی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب جب کہ ایلس ویلز خود بھارت آ رہی ہیں تو بھارتی حکام سے ان کی بات چیت میں کشمیر اور متنازع شہریت ترمیمی ایکٹ سمیت دیگر باہمی و علاقائی امور زیر بحث آئیں گے۔
واضح رہے کہ غیر ملکی سفارت کاروں کے کشمیر کے دورے کا انتظام حکومت نے کیا تھا۔ وفد نے سری نگر میں ریاستی اسمبلی کے بعض سابق ارکان، بی جے پی کارکنوں، تاجروں اور صحافیوں کے ایک گروپ اور چند غیر معروف افراد سے ملاقاتیں کی تھیں۔
وفد میں یورپی یونین کے نمائندے شامل نہیں تھے۔
یورپی ارکان کا کہنا تھا کہ وہ اسی صورت میں دورے پر جائیں گے جب وہ ہر کسی سے مل سکیں اور دورہ حکومت کی نگرانی میں نہیں ہو گا۔
سپریم کورٹ نے جمعے کو جموں و کشمیر انتظامیہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ انٹرنیٹ سمیت دیگر پابندیوں پر ایک ہفتے کے اندر نظر ثانی کرے۔
شیخ منظور احمد کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے اگرچہ بہت تاخیر سے یہ حکم دیا تاہم اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
ان کے مطابق عدالت کا یہ کہنا کہ انٹرنیٹ تک رسائی بنیادی حقوق میں شامل ہے، انتہائی اہم ہے۔
حکومت نے اگر چہ پابندیاں کچھ نرم کی ہیں لیکن اب بھی سیکڑوں افراد زیر حراست بتائے جا رہے ہیں جب کہ پانچ اگست 2019 سے انٹرنیٹ بھی معطل ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ جموں و کشمیر میں صورت حال تیزی سے معمول پر آرہی ہے اور 'دہشت گردی' کی وارداتوں میں بہت حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔