بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بڑی تعداد میں وفاقی پولیس فورسز اور نیم فوجی دستوں کی آمد اور جموں اور وادی کشمیر کے مختلف علاقوں میں ان کی تعیناتی کے بعد ایک بار پھر افواہوں کا بازار گرم ہوگیا ہے۔
مقامی آبادی کے ایک وسیع حلقے میں اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ بھارتی حکومت مسلم اکثریتی وادی کشمیر کو مزید کمزور کرنے کے لیے اسے دو یا تین حصوں میں تقسیم کر رہی ہے۔ نیز انتظامی تبدیلیوں کے ذریعے مقامی مسلمانوں کی سیاسی پہنچ کو، مبینہ طور پر، محدود بنایا جارہا ہے۔
دوسری جانب، پاکستان نے کہا ہے کہ اسے اس بات پر تشوش ہے کہ بھارت، اس کے بقول، کشمیر پر اپنا ناجائز اور غیر قانونی قبضہ برقرار رکھنے کے لیے علاقے کو تقسیم در تقسیم کرنے اور آبادیات کو تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کرسکتا ہے۔
گزشتہ ایک ہفتے سے بھارت کی وفاقی پولیس فورسز اور نیم فوجی دستوں کو ہزاروں کی تعداد میں ساز و سامان کے ساتھ جموں اور وادیٔ کشمیر میں لاکر مختلف مقامات پر ٹھہرایا گیا ہے۔
اس فوجی تعیناتی سے مختلف علاقوں بالخصوص وادیِ کشمیر میں طرح طرح کی افواہیں زیر گردش ہیں۔ لوگ مختلف قسم کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔
کئی لوگوں نے سوشل میڈیا پر استفسار کیا کہ کیا بھارت کی حکومت کشمیریوں کے ساتھ کوئی اور کھیل کھیلنا چاہتی ہے۔ اسی طرح بعض مقامی سیاسی کارکنوں نے بھی کہا ہے کہ فوجی تعیناتیوں نے اس خدشے کو جنم دیا ہے کہ یہ نئی دہلی کی طرف سے کسی بڑے اقدام کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔
'افواہیں بے بنیاد ہیں، سیکیورٹی فورسز واپس لوٹ رہی ہیں'
البتہ حکام کا کہنا ہے کہ وفاقی پولیس فورسز کی آمد کے حوالے سے زیرِ گردش افواہیں بے بنیاد ہیں۔
حکام نے کہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے افواہیں پھیلا کر امن و امان خراب کرنے کی کوشش کا سنجیدہ نوٹس لیا گیا ہے۔ اور، ان کے بقول، اس عمل میں شامل 'شرپسند' عناصر کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔
پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار وجے کمار نے بڑی تعداد میں وفاقی آرمڈ فورسز کی آمد کے بارے میں ایک وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ یہ فورسز پہلے بھی جموں و کشمیر میں تعینات تھیں لیکن انہیں چند ماہ قبل بھارت کی ریاستوں مغربی بنگال، آسام، کیرلا میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے دوران ڈیوٹی کی انجام دہی کے لیے جموں و کشمیر سے باہر منتقل کیا گیا تھا۔ اور اب انہیں معمول کی ذمہ داری پر علاقے میں دوبارہ تعینات کیا جا رہا ہے۔
'کشمیری مسلمانوں کی سیاسی اجارہ داری ختم کرنے کا منصوبہ'
دوسری جانب بھارت کے آن لائن اخبار 'دی پرنٹ' لکھتا ہے کہ نریندر مودی حکومت جموں و کشمیر کی سیاست پر مسلم اکثریتی وادی کشمیر کی اجارہ داری ختم کرنے اور اس کے ذریعے انتظامی معاملات میں سیاسی جماعتوں کا اثر و رسوخ کم کرنے کے لیے علاقے میں بعض اہم انتظامی تبدیلیاں لانے کا منصوبہ رکھتی ہے جن پر کشمیری مسلمانوں کا غلبہ ہے۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ اسی مقصد کے تحت جموں و کشمیر اسمبلی میں ہندو اکثریتی جموں خطے کی نشستوں کی تعداد بھی بڑھائی جائے گی۔
اخبار کے مطابق، اس سلسلے میں طریقۂ کار وضع کیا جا رہا ہے اور اس سال کے آخر میں باضابطہ اعلان متوقع ہے۔ اخبار نے بھارتی حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے حد بندی کمیشن کا حوالہ دیا ہے جسے جموں و کشمیر کے نئے انتخابی حلقوں کے تعین کا کام سونپا گیا ہے۔
'مذہبی بنیاد پر تقسیم کی کوشش پر خاموش تماشائی نہیں رہیں گے'
ادھر مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے مقامی لیڈر محمد یوسف تاریگامی نے خبر دار کیا ہے کہ اگر، ان کے بقول، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اپنے ہندوتوا ایجنڈے کی تکمیل کے لیے جموں و کشمیر کے عوام کو علاقائی، مذہبی، لسانی یا نسل کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوئی کوشش کی تو ریاستی عوام خاموش تماشائی بن کر نہیں رہیں گے۔
انہوں نے کہا "یہ نہ بھولیں ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔ ہم بھی دکھا سکتے ہیں کہ ہم کیا کرسکتے ہیں۔ اگر ہمیں ایک بار پھر تقسیم کرنے، ورغلانے یا ہم میں پھوٹ ڈالنے یا ہندو اور مسلمان کو آپس میں لڑانے کی کوشش کی گئی تو ہم کہیں گے یہ سودا ہمیں قبول نہیں۔''
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ '' جموں و کشمیر اور لداخ کے ہر خطے کے عوام زندگی کا سفر ایک ساتھ طے کرلیں گے۔ ہم جھوٹ اور غلط وعدوں کے سہارے نہیں جینا چاہتے۔ ہمیں ٹھوس بنیادوں پر اپنی زندگیوں کو سنوارنا ہو گا۔''
اسرائیلی ماڈل عملاً کوئی آسان کام نہیں
تاہم، سیاسی تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر نور احمد بابا کہتے ہیں کہ نریندر مودی حکومت کے لیے اسرائیلی ماڈل کی طرز کے ایجنڈے پر عمل کرنا آسان نہیں ہو گا۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ''کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بھارت کشمیر میں وہی دہرانا چاہتا ہے جو اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ کیا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ نئی دہلی کے لیے ایسا کرنا آسان نہیں ہو گا۔''
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیل میں سبھی سیاسی جماعتیں اور لوگ تل ابیب کے فلسطین اور دوسرے اسرائیل کے زیر اثر علاقوں میں جاری پروگرام اور ایجنڈے پر سیاسی نظریات سے بالاتر ہوکر متفق ہیں جب کہ بھارت میں بی جے پی اور اس کی سرپرست تنظیم راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے نظریات اور پالیسوں کے مخالفین کی تعداد کم نہیں اور کئی کمزوریوں کے باوجود اپوزیشن جماعتیں اور آزاد خیال سول سوسائٹی گروپس اور افراد ان کی مزاحمت کر رہے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر بھارت کو اقلیتوں کے ساتھ موجودہ نظامِ حکومت میں روا رکھے جانے والے رویے اور کشمیر کے مسئلے سمیت کئی معاملات میں دباؤ کا سامنا ہے اور بھارت کے حجم، تجارتی مفادات اور سیاسی امیج کو دیکھتے ہوئے بھی وہ تنہا ہو کر نہیں رہ سکتا۔
کشمیر کی آئینی حثیت کی بحالی کی صورت میں مذاکرات
ادھر پاکستان نے کہا ہے کہ اسے ان اطلاعات پر تشویش ہے کہ بھارت اپنے زیرِ انتظام کشمیر پر، اس کے بقول، غیر قانونی قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے اسے مزید تقسیم کرنے، دو شاخوں میں بانٹنے اور آبادیاتی تبدیلیوں کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے۔
اسلام آباد میں دفترِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ کسی بھی زیرِ قبضہ علاقے میں اس طرح کی تبدیلی کرنے یا اقدامات اٹھانے کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز موجود نہیں ہے۔
ترجمان نے بھارت پر زور دیا کہ وہ اپنی غیر قانونی اور عدم استحکام پیدا کرنے والی کارروائیوں کو روکے۔ انہیں یکسر تبدیل کرے اور کشمیر جو بین الاقوامی برادری کی طرف سے تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے وہاں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی مکمل تعمیل یقینی بنائے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ صورتِ حال کا فوری طور پر ادراک کرے۔
اس سے پہلے پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اُن کا ملک بھارت کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات بحال کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اس کے لیے بھارت کو جموں و کشمیر کو 5 اگست 2019 سے پہلے حاصل آئینی حیثیت کو بحال کرنا ہو گا۔
انہوں ںے کہا تھا کہ ''اگر روڈ میپ سامنے ہے ہم بات کریں گے۔ اگر وہ بھی ہمیں روڈ میپ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے (جموں و کشمیر) میں جو اقدامات اٹھائے ہیں، ہم انہیں منسوخ کرتے ہیں تو ہم بات کرلیں گے۔ وہ اقدامات غیرقانونی اور بین الاقوامی قانون اور اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے منافی ہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو تب وہ ہمارے لیے قابل قبول ہو گا۔''
البتہ، بھارت نے تاحال پاکستانی دفترِخارجہ کے ترجمان اور وزیرِ اعظم عمران خان کے بیان پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔