پاکستان کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ بھارت کے ساتھ موجودہ حالات میں تجارتی تعلقات بحال نہیں کیے جائیں گے۔
یہ فیصلہ وزیرِ اعظم عمران خان کی زیرِ صدارت بھارت سے تجارتی روابط بحال کرنے سے متعلق مشاورتی اجلاس میں کیا گیا۔
اس سے قبل رواں ہفتے جمعرات کو وفاقی کابینہ نے وزارتِ تجارت کی تجویز پر اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کی ہمسایہ ملک بھارت سے کپاس اور چینی درآمد کرنے کی سفارش پر فیصلہ مؤخر کر دیا تھا۔
ای سی سی کابینہ کی معاشی امور کے لیے بنائی گئی ذیلی کمیٹی ہے جس نے بدھ کو بھارت کے ساتھ بعض اشیا کی درآمد کی منظوری دی تھی۔
یاد رہے کہ اگست 2019 میں بھارت کی جانب سے کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیل کیے جانے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت معطل ہے۔
اطلاعات کے مطابق وزیرِ اعظم عمران خان نے حکومتی معاشی ٹیم کو درآمدات کے متبادل ذرائع استعمال کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔
وزارتِ تجارت کا قلم دان وزیرِ اعظم عمران خان کے پاس ہے اور انہوں نے وزارتِ تجارت کی سمری خود دیکھ کر اسے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کی منظوری دی تھی۔ تاہم کابینہ میں اس معاملے پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔
وزیرِ اعظم کی منظوری کے بعد سمری وفاقی کابینہ کو بھیجی گئی تھی۔
حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کا سمری مسترد ہونے پر کہنا ہے کہ یہ عمران خان پر عدم اعتماد ہے۔
سابق وفاقی سیکریٹری تجارت قاسم نیاز کہتے ہیں کہ کوئی بھی سمری متعلقہ وزیر کی اجازت کے بغیر نہیں بھیجی جاتی ہے۔ کیوں کہ ان کے بقول سمری پر یہ تحریر ہوتا ہے کہ وفاقی وزیر نے اس سفارش کو دیکھتے ہوئے متعلقہ وزارتوں کو ارسال کرنے کی منظوری دی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ یہ مستند بات ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارت کی بحالی کے حوالے سے وزیرِ اعظم کی پیش کی گئی سفارش مسترد ہو گئی ہے اور ماضی میں کبھی ایسی مثال نہیں ملتی۔
'کابینہ کو جمہوری انداز سے چلایا جاتا ہے'
وہ کہتے ہیں کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے رائج طریقہ کار اپناتے ہوئے سفارش کی منظوری دی۔ ای سی سی کے ہر فیصلے کی وفاقی کابینہ سے منظوری لازم ہے۔
قاسم نیاز نے کہا کہ وزیرِ اعظم کی پیش کی گئی سمری پر وفاقی وزرا کے اعتراض کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ کابینہ کو جمہوری انداز سے چلایا جاتا ہے جس کی ایک وجہ ان کے بقول سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ بھی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت کے اختیار سے مراد صرف وزیرِ اعظم نہیں، بلکہ کابینہ سے منظوری ضروری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وفاقی کابینہ اور ای سی سی میں فیصلہ سازی کا طریقۂ کار ایک جیسا ہے اور کسی بھی فیصلے کے لیے ووٹنگ نہیں ہوتی بلکہ اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔
معاشی امور کے تجزیہ کار فرحان بخاری کہتے ہیں پاکستان میں اشیا خور و نوش کی بڑھتی قیمتوں کو روکنے اور بھارت میں کسانوں کے جاری احتجاج میں نرمی لانے کے لیے یہ دونوں ہمسایہ ملکوں کی وقتی ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کریں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ فیصلہ سازی کا اپنایا گیا حالیہ طریقۂ کار اپنی صحافتی زندگی میں نہیں دیکھا کہ متعلقہ شراکت داروں اور وزارتوں سے مشاورت کے بغیر اتنا بڑا فیصلہ کیا گیا ہو اور پھر اسے 24 گھنٹے میں واپس لے لیا گیا ہو۔
وہ کہتے ہیں کہ ملک میں نئے وزیرِ خزانہ کے آنے کے باوجود ابھی تک ابہام ہے کہ وزارتِ خزانہ کا سربراہ کون ہے اور فیصلہ سازی کے اس طریقۂ کار کی وجہ سے ای سی سی کا اہم فورم مذاق بن گیا ہے۔
فرحان بخاری کہتے ہیں کہ ملک کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی لائے بغیر اس قسم کے فیصلے نہیں لیے جاتے کیوں کہ اس قسم کے فیصلے پالیسی فیصلے تصور کیے جاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس قسم کے فیصلے بعض اوقات عوامی ردِ عمل کا جائزہ لینے کے لیے بھی کیے جاتے ہیں تاہم یہ بغیر غور و فکر اور متعلقہ حلقوں سے مشاورت کے بغیر نہیں ہوتا۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت تبدیل کیے جانے سے قبل پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی عمل جاری تھا اور دونوں ممالک دو زمینی راستوں یعنی لاہور میں واہگہ اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے ذریعے اشیا کی تجارت کرتے رہے ہیں۔
بھارت نے فروری 2019 میں پلوامہ حملے کا ذمہ دار ٹھیراتے ہوئے پاکستان سے پسندیدہ ملک کا درجہ واپس لیا اور دو سو فی صد درآمدہ ڈیوٹی عائد کر دی تھی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں بھارت کو پاکستان کی برآمدات کا محض دو فی صد جب کہ اسی عرصے میں بھارت کی پاکستان کی برآمدات کا حجم محض 3 فی صد رہا۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم 342 ارب روپے ہے جس میں سے پاکستان کی برآمدات کا حجم 56 ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔
اس حساب سے بھارت کے ساتھ تجارت میں پاکستان خسارے میں ہے یعنی تجارتی توازن بھارت کے حق میں ہے۔
بھارت سے پاکستان میں سب سے زیادہ برآمد ہونے والی اشیا میں سبزیاں، کپاس، نامیاتی کیمیکل اور پلاسٹک شامل ہے۔
پاکستان سے بھارت جانے والی اشیا میں زیادہ حصہ تازہ پھلوں، سیمنٹ، پیٹرولیم مصنوعات، معدنیات اور چمڑے کا ہے۔