واشنگٹن میں ماہرین امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے دورہ بھارت اور افغانستان کے بعد پاکستان کو افغان امن عمل کے حوالے سے مثبت پیغام دینے کو اہمیت دے رہے ہیں ۔ واشنگٹن کے تھنک ٹینکس میں اس بارے میں بھی بات ہو رہی ہے کہ کیا افغانستان کے وزیر خارجہ کا دورہ بھارت افغان امن عمل میں بھارت کے بدلے یا بڑھتے ہوئے کردار کا عکاس ہے اور اگر ایسا ہے تو پاکستان اس صورتحال کو کیسے دیکھ رہا ہے؟
ایسی خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کے حالیہ معاہدے اور عہدیداروں کی جانب سے ایک دوسرے کے بارے میں دیئے گئے بیانات میں قدرے نرمی کا عندیہ امریکہ یا خلیجی ملکوں میں سے کسی کی مداخلت یا دباو کا نتیجہ ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور دوسرے ممالک اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری کے بغیر خطے خصوصا افغانستان میں امن قائم ہونا مشکل ہے اور گو کہ پاکستان بھارت تعلقات میں تبدیلی کا بنیادی محرک تو دونوں ممالک کا باہمی مفاد ہے لیکن ان تعلقات میں بہتری کے اشاروں کو افغانستان میں قیام امن کے لئے خطے میں جاری زبردست سفارت کاری سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے کسی فارمولے پرسمجھوتہ طے پا بھی گیا، تو بھی افغانستان کو اتحادی افواج کے انخلا کی صورت میں بےحد اقتصادی اور تجارتی مدد درکار ہو گی جس کے لیے اسلام آباد اور نئی دہلی میں مفاہمت اور اعتماد کی فضا ضروری ہیں۔
افغانستان میں امن کے حوالے سے کوششوں میں تیزی اور اسی وقت پاکستان اور بھارت کی تعلقات کی سمت میں بظاہر تبدیلی پر بات کرتے ہوئے واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ڈاکٹر مارون وائین بام کا کہناہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ بیک وقت ہونے والی اس دو رخی پیش رفت کا اس وقت ایک دوسرے سے اتنا گہرا تعلق ہے۔
وائن بام کے بقول، "آگے چل کر یقیناً پاکستان اور بھارت میں اچھے تعلقات افغانستان کے لیے مفید ہوسکتے ہیں لیکن اس وقت ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں نے محسوس کیا ہے کہ انہیں باہمی تناو کم کرنا چاہیے۔ اور بظاہر اس کا افغان امن عمل سے تعلق نہیں ہے۔"
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی کم ہونے سے بھارت کو یہ فائدہ ہو گا کہ نئی دہلی کو ایک ایسے وقت میں پاکستان کی سرحد کے بارے میں فکر مند نہیں ہونا ہوگا، جبکہ اسے چین سے بھی سرحدی تنازعہ درپیش ہے۔
لیکن پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے تناظر میں سلامتی کے مسائل ہمیشہ سے دوسرے عوامل پر غالب رہے ہیں۔ حالیہ سالوں میں کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے اور دونوں ملکوں کی جانب سے ایک دوسرے کی سرحد پر فائرنگ کے تبادلے اور دہشت گردی کے الزامات نے دونوں ممالک کے مابین حالات کو مزید کشیدہ کر دیا تھا۔
واشنگٹن میں جنوبی ایشیائی امور کے ماہر شجاع نواز کے نزدیک پاکستان، افغان امن کے حوالے سے بھارت کے کردار پر سوالات اٹھا سکتاہے۔
"پاکستان کے نزدیک یہ بات بہت اہم ہے کہ وہ اپنے مغربی بارڈر پر امن برقرار رکھے ۔پاکستان نے کئی بار اس مسئلہ کو اٹھایا ہے کہ بھارت افغانستان اور ایران کی سرزمین کا غلط استعمال کر کے بلوچستان اور پختونخواہ صوبوں میں دہشت گردی کو ہوا دیتا رہا ہے"۔۔
واضح رہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی سے متعلق ایسے الزامات کو مسترد کرتا ہے۔
وائن بام کے بقول، "اس میں کو ئی شک نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے بہتر تعلقات افغانستان کے لیے اچھے ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ بھارت اور افغانستان کے درمیان پاکستان کے ذریعہ تجارت سب کے لیے فائدہ مند ہو گی ۔ لیکن اس وقت یہ بات ذرا دور دکھائی دیتی ہے۔"
اس سلسلے میں برسوں پہلے کیا گیا افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ کئی مشکلات کا شکار رہا ہے اور افغانستان اور بھارت کو پاکستان کے ذریعہ اپنا سامان تجارت ایک سے دوسرے ملک برآمد کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
کئی سالوں سے بھارت اپنی مصنوعات کو افغانستان برآمد کرنے کے لیے سمندری راستے اور حالیہ دنوں میں ایران کی چاہ بہار بندرگاہ استعمال کررہا ہے جو کہ ایک طویل راستہ ہے۔ اسی طرح پاکستان کے پاس وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ چین کے کاشغر خطے کے ذریعہ تجارت کا آپشن موجود ہے۔ تاہم ان متبادل راستوں سے پاکستان اور افغانستان کے باہمی تجارت کوفروغ نہیں ملتا۔
واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت نے گزشتہ ماہ جنگ بندی معاہدے پر عمل کرنے پراتفاق کرنے کے بعد حال ہی میں نئی دہلی میں پانی کی مسائل پر بات کی ہے۔ بھارتی میڈیا میں خبریں شائع ہو رہی ہیں کہ رواں ماہ کے آخر میں تاجکستان کے دارالحکومت دو شنبے میں افغانستان کے معاملے پر ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستانی اور بھارتی وزرائے خارجہ کی ملاقات متوقع ہے۔ گو کہ ابھی پاکستان اور بھارت نے سرکاری سطح پر اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
حالیہ ہفتوں میں امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نےافغان امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے خطے میں روابط بڑھادیے ہیں۔ امریکی وزیر دفاع آسٹن نے بھارت اور افغانستان کا دورہ کیا ہے اور پاکستانی کے آرمی چیف سے فون پر بات کی ہے جبکہ اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی پاکستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کی بہتری اور افغانستان میں امن کی خاطر باہمی تعاون پر پاکستانی وزیر خارجہ سے بات کی تھی۔
افغانستان کے مستقبل کے بارے میں اگلے ماہ ترکی بھی ایک کانفرنس کی میزبانی کرنے والا ہے، جس میں خطے کے اہم ملک شریک ہوں گے۔ ایسے میں مبصرین کے مطابق پاکستان بھارت کے درمیان تعلقات میں بہتری افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے لئے بھی اہمیت کی حامل ہے۔