امریکہ کے وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن کے پاکستان سے تعلقات مضبوط کرنے کے حالیہ بیان پر مبصرین نے کہا ہے کہ امریکہ کی نظر میں افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی اہمیت کسی طور کم نہیں ہوئی۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر نظر رکھنے والے مبصر اور بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار نجم رفیق کہتے ہیں کہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ افغانستان کے تنازعے کا پُر امن حل کے لیے پاکستان کے کردار کی معترف ہے۔ البتہ امریکہ کی توجہ انڈو پیسفک خطے پر بھی مرکوز ہے جس کے لیے واشنگٹن دیگر اتحادیوں کے علاوہ بھارت کے کردار کو اہم خیال کرتا ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ کے وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے اتوار کو افغانستان کے دارالحکومت کابل کا غیر اعلانیہ دورہ کیا تھا۔
امریکہ کے محکمۂ دفاع کے بیان کے مطابق اس دورے میں لائیڈ آسٹن نے پاکستان کے اعلیٰ فوجی حکام سے بھی ٹیلی فونک گفتگو کی تھی۔
پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے گفتگو کے دوران لائیڈ آسٹن نے کہا تھا کہ وہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان باہمی دلچسپی کے شعبوں میں مزید تعاون کے خواہاں ہے۔
اس دورے میں امریکی وزیرِ دفاع نے پاکستان کے ساتھ مضبوط دفاعی تعلقات برقرار رکھنے کے امریکی عزم کا اعادہ کیا۔ جب کہ افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کو بھی سراہا۔
وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن کی پاکستان کے آرمی چیف سے گفتگو ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ایک طرف افغانستان کے تنازعے کے حل کے لیے بین الاقوامی کوششوں میں تیزی آئی ہے۔ جب کہ دوسری جانب امریکہ کے صدر جو بائیدن کی انتظامیہ، امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ برس فروری میں ہونے والے معاہدے پر نطرِ ثانی کر رہی ہے۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار نجم رفیق کہتے ہیں کہ امریکہ کے وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن کا بیان اس بات کا مظہر ہے کہ خطے میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کے باوجود امریکہ کی نظر میں افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے اہمیت کسی طور کم نہیں ہوئی ہے۔
نجم رفیق کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کی تعلقات میں شاید اب وہ گرم جوشی نہ ہو جو اسلام آباد اور واشنگٹن ڈی سی ایک دوسرے کے نہایت اہم اسٹرٹیجک اتحادی ہونے کے وقت نظر آتی تھی۔
نجم رفیق کے بقول پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی بنیاد باہمی مفادات پر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سرد جنگ میں امریکہ سویت یونین (روس) کو محدود رکھا چاہتا تھا اور افغانستان میں روس کی مداخلت کے بعد اسلام آباد کی اہمیت امریکہ کے لیے بڑھ گئی تھی۔ پھر نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی پاکستان اور امریکہ کا تعاون جاری رہا۔
تجزیہ کار نجم رفیق کے خیال میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان ماضی جیسے اسٹرٹیجک تعلقات کے بحال ہونے کا بظاہر کوئی امکان نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان فوجی تربیت کے پروگرام میں تعاون ہو سکتا ہے۔ لیکن جہاں تک اسلحہ اور دفاعی ساز و سامان کی فراہمی کی بات ہے شاید یہ ممکن نہ ہو۔
افغانستان کی صورتِ حال پر پاکستان بھارت تعلقات کے اثرات
دوسری طرف بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہما بقائی کہتی ہیں کہ امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر ہوں تاکہ خطے میں امن و استحکام آئے۔
ان کےبقول پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ امریکہ پاکستان اور بھارت کی باہمی معاملات کو حل کرنے کے عملی اقدامات کرے جس کی وجہ سے افغانستان کی صورتِ حال پر بھی مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ہما بقائی کا کہنا ہے کہ بیجنگ سے اسٹریٹجک قربت کے باوجود اسلام آباد واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنیادوں پر استوار رکھنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں پاکستان اور امریکہ کے قریبی اسٹرٹیجک تعلقات رہے ہیں اور پاکستان انہیں کسی طور ختم نہیں کرنا چاہتا تھا۔
قبل ازیں وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن امریکہ کی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے اپنے عہدے کی توثیق کی سماعت کے دوران کہہ چکے ہیں کہ پاکستان، افغانستان میں امن عمل کا اہم شراکت دار ہے۔
وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی فوج کے ساتھ تعلقات استوار کرنے سے واشنگٹن ڈی سی اور اسلام آباد کے درمیان اہم امور پر تعاون کی راہیں کھلیں گی۔
بائیڈن کی صدر علوی کو یومِ پاکستان پر مبارک باد
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے یومِ پاکستان پر پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی اور پاکستان کی قوم کو مبارک باد دی ہے۔
صدرِ پاکستان کے سوشل میڈیا اکاونٹ پر بیان کے مطابق ڈاکٹر عارف علوی کے نام اپنے پیغام میں امریکی صدر جو بائیڈن نے پاکستان کے ساتھ اپنی شراکت داری کو مضبوط کرنے کے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ افغانستان میں قیامِ امن، کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے مشترکہ چیلنج سے نمٹنے کے لیے تعاون جاری رکھیں گے۔