افغانستان میں قیامِ امن کے لیے روس کی میزبانی میں 18 مارچ کو افغان کانفرنس کا اہتمام کیا جا رہا ہے جس میں افغان حکومت، طالبان، امریکہ، چین اور پاکستان کے نمائندوں کو شرکت کی بھی دعوت دی گئی ہے۔
یہ کانفرنس ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب امریکہ کی نئی انتظامیہ بھی افغان تنازع کے حل کے لیے اقوامِ متحدہ کے تحت افغان امن کانفرنس بلانے پر زور دے رہی ہے۔
افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حمداللہ محب کا کہنا ہے کہ افغان حکومت ماسکو اور ترکی میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں میں شرکت کرے گی۔
تاہم ابھی تک طالبان کی جانب سے اس کانفرنس میں شرکت سے متعلق کوئی حتمی بیان سامنے نہیں آیا ہے. لیکن بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ دوحہ میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر سے کچھ اراکین ماسکو کانفرنس میں شرکت کریں گے۔
واضح رہے کہ یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب افغانستان میں تشدد کی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے چند روز قبل ایک مراسلے میں افغان صدر اشرف غنی پر واضح کیا تھا کہ امریکہ یکم مئی تک افغانستان سے فوج کے مکمل انخلا کے علاوہ دیگر آپشنز بشمول عبوری حکومت کے قیام پر بھی غور کر رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق امریکی وزیر خارجہ کے خط کے حوالے سے دو رائے پائی جاتی ہیں، حکومت سے باہر سیاست دان سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں چار دہائیوں سے جاری خون ریزی اور کشمکش کا واحد حل بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی کوششوں سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
کابل میں مقیم اشرف غنی کے سابق ترجمان اور تجزیہ نگار نجیب اللہ آزاد اینٹنی بلنکن کے خط کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور آمرانہ تجویز قرار دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ افغان حکومت یہ سمجھتی ہے کہ باہر سے مسلط کیا ہوا امن معاہدہ کبھی بھی پائیدار نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ صدر اشرف غنی سمجھتے ہیں کہ اس معاہدے میں افغان حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور آئین کے مطابق انتخابات کے بغیر کسی بھی دوسرے طریقے سے اقتدار منتقل نہیں ہو سکتا۔
تاہم دوسری جانب افغانستان کی اعلیٰ کونسل برائے قومی مصالحت کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ امریکی تجویز کے حق میں نظر آتے ہیں۔
نجیب اللہ آزاد کا کہنا ہے کہ طالبان اپنی کارروائیوں میں کوئی کمی نہیں لائے ہیں اور کابل اور دوسرے بڑے شہروں میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات عروج پر ہیں، تاہم اس کی ذمے داری کوئی نہیں لیتا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ماسکو میں ہونے والی کانفرنس افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔
اس بارے میں افغان امور کے ماہر اور سینئر تجزیہ کار سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس کا بنیادی مقصد افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان افہام و تفہیم پیدا کرنا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں افغان امور کے ماہر نے مزید بتایا کہ اگر ماسکو کانفرنس میں فریقین جنگ بندی اور عبوری حکومت کے قیام پر متفق ہو جاتے ہیں تو پھر اپریل میں ہونے والی استنبول کانفرنس میں مزید پیش رفت کی امید کی جا سکتی ہے۔
سمیع یوسفزئی کے مطابق اس سے قبل بھی ماسکو میں دو اہم کانفرنسز ہو چکی ہیں اور ان کانفرنسز کے بعد ہی امریکہ نے باضابطہ طور پر طالبان کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا جو کہ ڈیڑھ سال بعد فروری 2020 میں دوحہ امن معاہدے کی صورت میں اختتام پذیر ہوا۔
ان کے بقول افغان مفاہمت عمل کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کی سرتوڑ کوشش ہو گی کہ تمام فریقوں کو افغانستان میں قیامِ امن کے حوالے سے عبوری حکومت کے قیام پر متفق کیا جاسکے اور دو ڈھائی سال کے ہوم ورک کے بعد نئے انتخابات کا انعقاد کر کے افغانستان کے مستقبل کی راہ ہموار کی جائے۔
سمیع یوسفزئی کا مزید کہنا تھا کہ 18 مارچ کو روس کے دارالحکومت ماسکو میں ہونے والی کانفرنس ایک لحاظ سے استنبول کانفرنس کی ریہرسل ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر طالبان عبوری حکومت کے قیام اور تشدد میں کمی جیسی شقوں پر آمادگی ظاہر کرتے ہیں تو امریکہ کے لیے افغان صدر اشرف غنی پر مستعفی ہونے کے لیے دباؤ ڈالنے میں آسانی ہو گی۔
اُن کے بقول زلمے خلیل زاد کے لیے بھی آخری موقع ہے کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے یکم مئی تک کوئی ایسا فارمولہ تیار کریں جو تمام دھڑوں کے لیے قابلِ قبول ہو۔
ادھر لامار یونیورسٹی میں شعبہ صحافت سے منسلک اور امریکی امور کے ماہر پروفیسر اویس سلیم کا کہنا ہے کہ اینٹنی بلنکن کے خط کو محتاط طریقے سے 'ڈرافٹ' کیا گیا۔
اُن کے بقول ایک جانب اس میں تمام امور بشمول امریکی فوج کے یکم مئی تک انخلا سے متعلق دوحہ امن معاہدے کے حوالے سے بات کی گئی ہے تو دوسری جانب سابق صدر ٹرمپ کی جانب سے کیے گئے معاہدے پر نظرِ ثانی کے بارے میں بھی عندیہ دیا گیا ہے۔
اُن کے بقول اس خط میں افغانستان کے مستقبل اور استحکام کے حوالے سے افغان حکومت اور طالبان کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگر ممالک کو بھی شامل کرنے کی بات کی گئی ہے۔
اویس سلیم سمجھتے ہیں کہ عبوری عمل کا فارمولہ شاید طالبان کو پسند نہ ہو کیوں کہ طالبان کا ہمیشہ سے یہی مؤقف رہا ہے کہ وہ شرائط کے تحت کوئی بھی معاہدہ قبول نہیں کریں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کی یہی خواہش ہوگی کہ مستقبل میں افغانستان کی باگ ڈور طالبان کے حوالے کی جائے۔
امریکی امور کے ماہر کے مطابق امریکہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے فوجیوں کی افغانستان سے واپسی ہو اور اسی لیے بائیڈن انتظامیہ نے زلمے خلیل زاد کو فعال کردار جاری رکھنے کو کہا ہے تاکہ زیادہ وقت ضائع نہ ہو۔
یاد رہے کہ دوحہ امن معاہدے کے مطابق یکم مئی تک امریکہ اور نیٹو کی افواج کا افغانستان سے انخلا ہونا ہے۔ تاہم بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس سے افغانستان کی امن و امان کی صورتِ حال مزید بگڑ سکتی ہے۔
عالمی کاوشوں پر طالبان کا ردِعمل
علاوہ ازیں طالبان کے دوحہ میں قائم سیاسی دفتر کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم کا کہنا ہے کہ افغانستان کے مسائل کا افہام و تفہیم سے حل اسی میں ہے کہ دوحہ امن معاہدے پر صحیح معنوں میں عمل کیا جائے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید واضح کیا کہ دوحہ معاہدے میں غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بارے میں واضح طور پر لکھا گیا ہے۔ جس کی نہ صرف امریکہ بلکہ اقوامِ متحدہ اور دیگر ممالک نے بھی تائید کی ہے۔
حال ہی میں اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں افغانستان میں بڑھتے ہوئے حملوں کی مذمت کی گئی ہے۔
بیان کے مطابق 12 ستمبر 2020 کے بعد سے حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان میں ہونے والی ان کارروائیوں میں سرکاری اہلکاروں، جج، صحافیوں، طبی عملے، سماجی کارکن اور اہم عہدوں پر تعینات خواتین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو کہ انسانی اور اقلیتی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تھے۔
خیال رہے کہ جمعے کو افغانستان کے مغربی صوبے ہرات میں ایک کار بم دھماکے میں آٹھ افراد ہلاک جب کہ 47 زخمی ہو گئے تھے، اس دھماکے کی ذمے داری کسی نے قبول نہیں کی۔
اویس سلیم کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ اور اتحادی افواج کے افغانستان سے نکل جانے کی صورت میں نہ صرف سیکیورٹی بلکہ افغانستان کی معیشت پر بھی بُرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
اُن کے بقول امریکی حکام کو بھی یہ ادراک ہے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد امن و امان کی صورتِ حال اور افغان معیشت پر بھی اثرات پڑ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر اشرف غنی کے سابق ترجمان نجیب اللہ آزاد کا کہنا ہے کہ اگرچہ صدر اشرف غنی افغانستان میں عبوری حکومت کی تجویز سے متفق نہیں ہیں تاہم ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔
انہوں نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ انتخابات کے بعد افغان صدر کسی بھی طریقے سے اقتدار کی منتقلی کے حق میں نہیں تھے تاہم امریکہ اور عالمی برادری کے دباؤ پر انہیں ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت بنانا پڑی۔
ان کے بقول اسی طرح طالبان کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی بھی اشرف غنی نے سخت مخالفت کی لیکن بعد میں وہ تجویز بھی انہیں ماننا پڑی۔
نجیب اللہ آزاد کے مطابق اب جب کہ اکثریتی سیاسی جماعتیں، عالمی برادری اور علاقائی طاقتیں امریکی تجویز کے حق میں ہیں تو صدر اشرف غنی اپنی مخالفت کو زیادہ دیر تک جاری نہیں رکھ پائیں گے۔