اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ گو کہ 2020 میں افغانستان میں ہلاک اور زخمی ہونے والے عام شہریوں کی تعداد میں 2019 کے مقابلے میں 15 فی صد کمی ہوئی ہے۔ تاہم بین الافغان مذاکرات شروع ہونے کے بعد سویلین ہلاکتوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے افغانستان کے لیے معاون مشن نے اپنی تازہ رپورٹ میں افغانستان میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تمام فریقوں سے جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی طرف سے جنگ بندی کا مطالبہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب بین الافغان مذاکرات میں کئی ہفتوں کے تعطل کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے مذاکرات کاروں نے پیر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ملاقات کی ہے۔
بین الافغان مذاکرات کا آغاز گزشتہ سال ستمبر میں ہوا تھا۔ تاہم ان میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
دوسری جانب افغانستان میں تشدد کے واقعات میں اضافہ جاری ہے جب کہ اس حوالے سے ایک غیر یقینی صورتِ حال درپیش ہے کہ آیا امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کے تحت یکم مئی کو افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کا عمل مکمل ہو گا یا نہیں۔
رپورٹ کے مطابق 2020 میں افغانستان میں تشدد کے مختلف واقعات میں 3035 افغان شہری ہلاک جب کہ 5785 زخمی ہوئے۔ اگرچہ یہ تعداد 2019 کے مقابلے میں 15 فی صد کم ہے لیکن رپورٹ کے مطابق 2020 کے آخری تین ماہ کے دوران تشدد کے واقعات میں ہلاک و زخمی ہونے والے عام افغان شہریوں کی تعداد میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان میں جاری تنازع کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ہلاک و زخمی ہونے والے میں سے 43 فی صد خواتین اور بچے ہیں۔
اقوامِِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی افغانستان کے لیے نمائندۂ خصوصی ڈیبورا لیونز نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ 2020 افغانستان میں امن کا سال ہو سکتا تھا لیکن ان کے بقول اس سال بھی ہزاروں افغان شہری ہلاک ہوئے۔
ڈیبورا لیونز نے ایک ٹوئٹ میں جنگ بندی پر زور دیتے ہوئے کہا ہے وہ فریقین جو جنگ بندی سے انکار کر رہے ہیں انہیں اس کے تباہ کن نتائج کا ادراک کرنا چاہیے۔ ان کے بقول انسانی بنیادوں پر ہونے والی جنگ بندی کے ذریعے ہی عام شہریوں کا تحفظ کیا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ بین الاقوامی برادری طالبان پر جنگ بندی پر زور دیتی آ رہی ہے۔ لیکن طالبان جنگ بندی پر تاحال تیار نہیں ہیں۔
رپورٹ میں عام افغان شہریوں کی ہلاکت یا زخمی ہونے کے زیادہ تر واقعات کا ذمہ دار غیر ریاستی عناصر کو قرار دیا گیا ہے جن میں اکثریت طالبان کی ہے جب کہ 20 فی صد شہریوں کے ہلاک و زخمی ہونے کا ذمے دار افغان سیکیورٹی فورسز کو قرار دیا گیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ پر افغان حکومت کا کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن اس سے قبل افغان حکام یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ چند ماہ کے دوران طالبان کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بدقسمتی سے ایک بار پھر افغانستان میں عام شہریوں کی ہلاکت کے اصل ذمے داروں کے تعین کے بجائے طالبان کو موردِ الزام ٹھیرایا جا رہا ہے۔