امریکہ کی نئی انتظامیہ نے افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کو اپنا کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔
بدھ کو واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے تصدیق کی کہ انہوں نے خلیل زاد سے وہ اہم کام جاری رکھنے کا کہا ہے جو وہ کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے خلیل زاد کو افغان طالبان سے بات چیت کے لیے امریکہ کا نمائندۂ خصوصی مقرر کیا تھا جس کے نتیجے میں 29 فروری 2020 کو امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ طے پا گیا تھا۔
گو کہ جو بائیڈن انتظامیہ امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے اس معاہدے پر نظرِثانی کا عندیہ دے چکی ہے۔ تاہم خلیل زاد کو کام جاری رکھنے کا کہا گیا ہے۔
اینٹنی بلنکن کا کہنا تھا کہ نئی امریکی انتظامیہ طالبان کے ساتھ معاہدے اور ان میں کیے گئے وعدوں کا ازسرنو جائزہ لے گی۔
امریکہ اور طالبان نے گزشتہ سال 29 فروری کو مذاکرات کے کئی ادوار کے بعد امن معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔
معاہدے کے تحت امریکہ نے افغان جیلوں میں قید طالبان جنگجوؤں کی رہائی سمیت مئی 2021 تک افغانستان سے امریکی اور اتحادی فوج کے مکمل انخلا پر اتفاق کیا تھا۔
طالبان نے امریکہ کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ افغان سرزمین کو امریکہ یا اس کے اتحادی ملکوں کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ طالبان نے یہ بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ القاعدہ سمیت افغانستان میں دیگر دہشت گرد گروپوں سے روابط بھی نہیں رکھیں گے۔
خلیل زاد کو اپنا کام جاری رکھنے کا گرین سگنل ایسے وقت میں دیا گیا ہے جب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان اور افغان دھڑے مذاکراتی عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود افغانستان میں تشدد کے واقعات جاری ہیں جس کی وجہ سے امریکہ اور افغان حکومت کی جانب سے طالبان کو تنقید کا بھی سامنا ہے۔
ذہین طالب علم سے سفارت کار تک کا سفر
امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد افغانستان میں پیدا ہوئے اور ان کا تعلق پشتون خاندان سے ہے۔ 69 سالہ خلیل زاد نے ابتدائی تعلیم افغانستان میں حاصل کی جب کہ اعلیٰ تعلیم لبنان میں امریکن یونیورسٹی آف بیروت سے حاصل کرنے کے بعد وہ امریکہ آ گئے۔
افغانستان کے معروف دانش ور زلمے ھیوادمل کے مطابق زلمے خلیل زاد کا شمار افغانستان کے انتہائی قابل طلبہ میں ہوتا تھا۔ اسی وجہ سے انہوں نے انٹرمیڈیٹ سے قبل امریکہ میں فل برائٹ اسکالرشپ حاصل کر لی۔
انٹرمیڈیٹ کے بعد انہوں نے بیروت لبنان میں امریکن یونیورسٹی میں قابلیت کی بنیاد پر داخلہ لینے میں بھی کامیابی حاصل کی تھی۔
افغانستان سے تعلق رکھنے والے صحافی سید رحمان بیکور کا کہنا تھا کہ زلمے خلیل زاد ان چند افغان نوجوانوں میں سے تھے جنہوں نے اپنی قابلیت اور ذہانت کی بنیاد پر امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔
ان کے بقول اپریل 1978 میں افغانستان میں سویت فورسز کی آمد سے قبل زلمے خلیل زاد ان اولین افراد میں سے تھے جنہوں نے پاکستان ہجرت کی تھی۔ وہ چند مہینوں کے لیے پشاور میں رہے تھے اور بعد میں وہ مستقل طور پر اس وقت امریکہ متنقل ہو گئے جب روسی فوج کے خلاف مزاحمت کا آغاز ہوا۔
امریکہ میں قیام کے ابتدائی سالوں کے دوران خلیل زاد نے امریکہ کے محکمۂ خارجہ میں افغانستان کے لیے قائم خصوصی ڈیسک پر کام کیا۔ اس دوران وہ افغانستان اور پاکستان سے آنے والے افغان فود کے ساتھ امریکی حکام کی بات چیت کے دوران بطور مترجم بھی کام کرتے رہے۔
جب سابق امریکی صدر رونلڈ ریگن کے دور میں مولوی یونس خالص کی قیادت میں افغان مجاہدین کے رہنماؤں نے امریکہ کا دورہ کیا تو اس دوران صدر ریگن سے افغان مجاہدین رہنماؤں کی ملاقات کے وقت زلمے خلیل زاد ہی نے مترجم کے فرائض سرانجام دیے تھے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے مطابق خلیل زاد 1979 سے 1986 تک امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی میں پولٹیکل سائنس کے اسسٹٹ پروفیسر بھی رہے۔ اس کے علاوہ وہ کئی امریکی تحقیقاتی اداروں کے سابھ بھی وابستہ رہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے مطابق خلیل زاد محکمہ خارجہ میں مختلف عہدوں پر بھی کام کرتے رہے اور 2004-2005 میں افغانستان اور 2005-2007 میں عراق اور بعدازاں اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سفیر رہ چکے ہیں۔ ستمبر 2018 میں ٹرمپ انتظامیہ نے انہیں افغانستان کے لیے امریکہ کا نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت مقرر کیا تھا۔
افغان امور کے تجزیہ کار اور صحافی طاہر خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کا سہرا زلمے خلیل زاد کے سر ہی جاتا ہے۔
اُن کے بقول یہ زلمے خلیل زاد ہی تھے جن کی انتھک محنت اور کوششوں کے باعث 29 فروری کو وہ دن آیا جب امریکہ اور طالبان ایک ہی میز پر بیٹھے اور امن معاہدہ کیا۔
طاہر خان کے بقول افغان نژاد امریکی سفارت کار کے طور پر وہ نہ صرف افغان ثقافت، افغان دھڑوں اور طالبان کی سوچ سے واقفیت رکھتے تھے۔ اسی لیے اُنہیں یہ اہم ذمہ داری سونپی گئی۔
طاہر خان کے بقول امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کے دوران بھی کئی مشکل مراحل آئے، لیکن اس کے باوجود خلیل زاد یہ اہم معاہدہ کرانے میں کامیاب رہے۔
کیا افغان مفاہمت کے لیے خلیل زاد ناگزیر ہیں؟
تجزیہ کار طاہر خان کے بقول جو بائیڈن انتظامیہ نے اسی وجہ سے زلمے خلیل زاد کو اپنا کام جاری رکھنے کا کہا کیوں کہ بائیڈن انتظامیہ معاہدے پر نظرِ ثانی کا عندیہ دے چکی ہے۔
اُن کے بقول نئی امریکی انتظامیہ کو یہ بھی ادراک ہے کہ زلمے خلیل زاد ہی طالبان کو تشدد کم کرنے اور امریکہ کے ساتھ معاملات طے کرنے پر قائل کر سکتے ہیں۔
طاہر خان کے بقول خلیل زاد ٹرمپ انتظامیہ کے آخری دنوں تک افغان امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے سرگرم رہے اور 16 جنوری کو ہی اُنہوں نے دوحہ میں طالبان وفد سے ملاقات کی تھی۔
طاہر خان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی انتظامیہ جہاں زلمے خلیل زاد پر اعتماد کرتی ہے وہاں کابل کے بعض حلقے اُن کے حوالے سے تحفظات کا بھی اظہار کرتے رہے ہیں۔
امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت کے طور پر خلیل زاد نہ صرف کابل حکومت کے نمائندوں بلکہ دیگر افغان اسٹیک ہولڈرز سے سے رابطے میں رہے۔ لیکن بعض اوقات کابل کے بعض حلقے ان کی کردار کے حوالے سے تحفظات کا بھی کردار ادا کرتے رہے لیکن اس کے باوجود زلمے خلیل زاد کا کردار نہایت مؤثر رہا ہے۔
ان کے بقول خلیل زاد، قطر، پاکستان، بھارت، چین، روس اور یورپ کے دیگر ممالک کے حکام کے ساتھ بھی اچھے روابط رکھتے ہیں۔
صدر جو بائیڈن انتظامیہ بھی اٖفغانستان میں تعینات امریکی فورسز کو واپس بلانا چاہتی ہے اور گزشتہ سال امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت مئی 2021 میں تمام غیر ملکی فورسز کا انخلا مکمل ہونا ہے۔ لیکن دوسری طرف امریکہ کی نئی انتظامیہ افغانستان میں انسداد دہشت گردی کے لیے کچھ فورسز کو افغانستان میں تعینات رکھنا چاہتی ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ بلنکن سینٹ میں اپنی نامزدگی کی توثیق کے لیے ہونے والی سماعت کے دوران کہہ چکے ہیں کہ ہم افغانستان جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔