پاکستان کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اپنے ہم منصب عمران خان کو خط لکھا ہے جس میں خیر سگالی کا پیغام دیا گیا ہے۔
مودی نے اس خط میں لکھا ہے کہ پڑوسی ملک کی حیثیت سے بھارت پاکستان کے عوام کے ساتھ قریبی تعلقات کا خواہش مند ہے۔ البتہ دونوں ملکوں کے لیے دہشت گردی و دشمنی سے پاک اعتماد کی فضا ضروری ہے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے دفتر کے ایک ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مودی کے خط کی مذکورہ تحریر کی تصدیق کی ہے۔
پاکستان کے وفاقی وزیر اسد عمر نے وزیرِ اعظم مودی کے خط کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ عمران خان جب سے وزیرِ اعظم بنے ہیں، ان کی خواہش رہی ہے کہ جنوبی ایشیا کا خطہ پر امن ہو اور تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ باہمی احترام پر مبنی تعلقات قائم ہوں۔
دوسری جانب بھارتی میڈیا میں بھی اس خط کے بارے میں خبریں رپورٹ ہو رہی ہیں۔ بیشتر میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ مودی نے اپنے خط میں تعلقات میں بہتری کے لیے دہشت گردی سے پاک ماحول پیدا کرنے کی بات کی ہے۔
یاد رہے کہ نئی دہلی اور اسلام آباد کے تعلقات کئی ماہ سے کشیدگی کا شکار ہیں۔ نئی دہلی کی جانب سے بھارت اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کا ذمہ دار اسلام آباد کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ تاہم حکومتِ پاکستان ہمیشہ ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
نریندر مودی کا یہ خط ایسے موقع پر لکھا گیا ہے جب پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان اور فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے حال ہی میں ایسے بیانات سامنے آئے ہیں جن میں بھارت کے ساتھ مستحکم تعلقات کی بات کی گئی ہے۔
جنرل باجوہ کا ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہنا تھا کہ "یہ ماضی کو دفن کر کے آگے بڑھنے کا وقت ہے۔" ان کے بقول دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے خطہ پسماندگی کی طرف بڑھ رہا ہے اور غربت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے تناؤ کی بنیادی وجہ قرار دیا جاتا رہا ہے۔ لیکن گزشتہ ماہ دونوں ملکوں کے سرحدی کمانڈروں نے 2002 میں طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدے پر مکمل عمل درآمد پر اتفاق کیا تھا۔
جنگ بندی پر اتفاق کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ چند ہفتوں کے دوران کشیدگی میں کمی اور رابطوں میں تیزی دیکھی گئی ہے۔ بعض میڈیا رپورٹس میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دونوں ملک متحدہ عرب امارات کی کوششوں کے بعد قریب آئے ہیں۔
پاکستان کا ایک وفد تین برس بعد پہلی مرتبہ پانی کی تقسیم کے معاملات پر مذاکرات کے لیے بھارت روانہ ہوا تھا جہاں دونوں ملکوں کے انڈس واٹر کمشنرز نے بات چیت کی۔
دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کو بھی رواں ماہ کے اختتام پر افغان مسئلے پر منعقدہ کانفرنس میں شرکت کرنا ہے جس کی میزبانی تاجکستان کر رہا ہے۔ تاہم اب تک دونوں ملکوں کی جانب سے اس طرح کے کوئی اشارے نہیں ملے کہ آیا تاجکستان میں پاک بھارت وزرائے خارجہ کی ملاقات کا امکان ہے۔
یاد رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اس وقت بدترین کشیدگی کا شکار ہو گئے تھے جب بھارتی حکومت نے کشمیر کو حاصل خصوصی اختیارات کے قانون میں تبدیلی کر دی تھی۔
پاکستان نے بھارت کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے تعلقات کو محدود کر لیا تھا جب کہ سرحد پر دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان تناؤ میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔