رسائی کے لنکس

آئی ایم ایف پروگرام کے تحت معاشی جائزہ: چیلنجز کے باوجود پاکستان نئی قسط کے لیے پُرامید کیوں؟


کراچی—پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان 37 ماہ پر محیط قرض پروگرام کا پہلا جائزہ شروع ہوچکا ہے۔ حکومت کو اس وقت چھ سو ارب روپے ریونیو شارٹ فال کا سامنا ہے۔ تاہم وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ آئی ایم ایف قرض پروگرام کی دوسری قسط جاری کرنے پر راضی ہوجائے گا۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے پر امید ہونے کی وجہ جہاں حالیہ اقدامات کے کسی حد تک مثبت نتائج ہیں، وہیں افراطِ زر میں کمی بھی ہے جو دراصل معاشی سرگرمیوں میں سست روی کی وجہ سے ہوئی ہے۔

وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے منگل کو ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ پاکستان میں اس وقت قدرے معاشی استحکام ہے۔

انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ملک میں مختلف شعبوں میں اصلاحات کی جا رہی ہیں اور اس وقت موجود مواقع کو سمجھ داری سے استعمال کرتے ہوئے اسے پائیدار ترقی کی جانب لے جانا ہے۔

ٹیکس اہداف میں ناکامی؛ کیا آئی ایم ایف مان جائے گا؟

حکومت کو رواں مالی سال کے اختتام تک 12 ہزار 972 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرنا ہے جو گزشتہ سال سے38 فی صد زائد ہے۔

دوسری جانب ملک میں ٹیکس جمع کرنے کے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے اعداد و شمار کے مطابق ادارے کو گزشتہ آٹھ ماہ میں ٹیکس ہدف میں 604 ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے۔

اقتصادی ماہرین کے مطابق اس کی بنیادی وجہ معاشی سرگرمیوں میں سست روی اور پھر لوگوں کی قوتِ خرید کم ہونے کے باعث ٹیکس کی کم وصولی ہے۔

دوسری جانب رواں سال بھی حکومت تنخواہ دار طبقے کے مقابلے میں تاجروں سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے میں ناکام رہی ہے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی سامنے آنے والی بعض تفصیلات کے مطابق حکومت نے فنڈ کو یقین دلایا ہے کہ عدالتوں میں پھنسے ٹیکس معاملات میں فیصلہ جلد حکومت کے حق میں ہونے سے ٹیکس میں کمی کو کسی حد تک پورا کیا جاسکے گا۔

حکومت کو امید ہے کہ رواں مالی سال کے دوران عدالتوں میں ٹیکس کیسز میں حکومت کے پھنسے ہوئے تقریبا چار ہزار ارب روپے میں سے تین سو ارب روپے جون سے قبل ملنے کی توقع ہے۔

اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف رواں سال کے ٹیکس اہداف میں کمی کے لیے نظرِ ثانی پر تیار ہو جائے گا۔

حکام کو امید ہے کہ پہلے سے طے شدہ بجٹ میں خاطرِ خواہ کمی ممکن ہوسکے گی۔ لیکن اس کے لیے حکومت کو اخراجات میں کمی، توانائی کے گردشی قرضوں کو محدود کرنے سمیت پرائمری سرپلس کو ممکن بنانا ہوگا۔

ماہر معاشیات اور وزارتِ خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس وقت نظر آںے والے معاشی استحکام کی بنیادی وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ طویل المعیاد معاہدے کی چھتری تلے آنا ہے۔ پاکستان نے مالیاتی خسارہ کم کیا ہے۔ اس حوالے سے کئی اہداف اور اصلاحات پر بھی کام ہوا ہے۔ بعض شعبوں میں یہ عمل تعطل کا بھی شکار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیکس اہداف میں شارٹ فال ہے اور اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ لیکن حکومت کئی مالی اہداف کے حصول میں کسی حد تک قریب بھی دکھائی دیتی ہے۔ اس صورتِ حال میں ایک ملی جلی تصویر کی عکاسی ہوتی ہے جس میں جھکاؤ مثبت پیش رفت کی جانب نظر آتا ہے۔ امید رکھنی چاہیے کہ پاکستان کی آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول ایگریمنٹ میں بہتر پیش رفت ہوگی۔

ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب ملک میں معاشی نمو بہت کم ہے تو ایسے میں آئی ایم ایف بھی محصولات جمع کرنے کے اہداف میں کمی کے لیے راضی ہوسکتا ہے۔

آئی ایم ایف کے وفد نے حالیہ دنوں میں اسٹیٹ بینک حکام، تاجروں، اینٹی منی لانڈرنگ حکام اور وزارتِ خزانہ کے عہدیداران سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں جب کہ اس سے پہلے فنڈ کی چیف جسٹس سپریم کورٹ سے ملاقات ہوئی تھی جس پر تنقید بھی کی گئی ہے۔

اس بارے میں ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا تھا کہ یہ آئی ایم ایف کا نارمل ٹیکنیکل پراسس ہے جس میں وہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس کے پیچھے پہلے سے طے شدہ اسٹرکچرل بینچ مارک تھا جس کے تحت فنڈ کی تکنیکی مدد سے ایک رپورٹ تیار کی جانی ہے جس میں گورننس اور کرپشن فریم ورک پر غور ہونا ہے۔

’آئی ایم ایف کے پروگرام کو جاری رکھنے کے سوا چارہ نہیں‘

ادھر آئی ایم ایف کے جائزے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے نجی مالیاتی ادارے ’ٹاپ لائن سیکیوریٹیز‘ سے وابستہ معاشی ماہر شنکر تلریجس کا کہنا ہے کہ حکومت کو ریونیو اہداف پورے کرنے اور آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ میں نئے ٹیکس اقدامات کرنے پڑ سکتے ہیں۔ لیکن ان اقدامات سے افراطِ زر بڑھنے کے امکانات ہو سکتے ہیں جو اس وقت نو سال کی کم ترین سطح پر ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ سال ستمبر میں طے ہونے والے معاہدے کے تحت آئی ایم ایف پاکستان کو 37 ماہ میں مجموعی طور پر سات ارب ڈالر فراہم کرنے ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے جائزہ مکمل ہونے کے بعد پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قسط ملے گی ۔

ڈاکٹر خاقان نجیب کے خیال میں آئی ایم ایف پروگرام میں جانے سے پاکستان میں افراطِ زر میں کمی اور بیرونی خسارہ کسی حد سنبھل گیا ہے اور اس کا اثر ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر پر بھی نظر آتا ہے۔ اسی وجہ سے مرکزی بینک کے غیر ملکی ذخائر 11 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔ لیکن ان کامیابیوں کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کو جاری رکھنا ہوگا تاکہ پاکستان کے ذمے بیرونی قرضے رول اوور ہوتے رہیں۔

ان کے مطابق اس عمل سے پاکستان کو مالی بہتری کے لیے سنہری وقت میسر آگیا ہے تاکہ پائیدار نمو کی جانب لے جانے والے کام انجام دیے جا سکیں۔ اس کے لیے پاکستان میں سرکاری اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کرنا، ڈی ریگولیشن، کاروبار کرنے میں آسانیاں پیدا کرنے کے مواقع شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو توانائی کے شعبے میں اصلاحات ناگزیر ہوں گی تاکہ پاکستان کی پیداواری صلاحیت کو بڑھایا جاسکے جب کہ اس ضمن میں صوبوں کا کام طویل المعیاد ترقی کو ممکن بنانے کے لیے افرادی قوت کو ہنرمند بنانا ہوگا۔

خیال رہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے آغاز پر بھی ایک ارب ڈالر کی قسط پاکستان کو مل چکی ہے۔

یہ پاکستان کا اپنے قیام سے اب تک آئی ایم ایف کے ساتھ 25واں پروگرام ہے۔

آئی ایم ایف کے مطابق نئے پروگرام میں ملک کے میکرو اکنامک استحکام کو مضبوط کرنے، اسٹرکچرل چیلنجوں سے نمٹنے اوت زیادہ جامع ترقی کے لیے حالات پیدا کرنے کے ٹھوس اصلاحات کی ضرورت درپیش ہے۔

اس مقصد کے لیے پالیسیوں میں تبدیلیاں، پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے مختلف شعبوں میں اصلاحات سمیت نجی شعبے کو بہتر کاروباری ماحول فراہم کرنے اور سرکار کے تحت چلنے والے کاروباری اداروں میں اصلاحات ترجیحی نکات میں شامل ہیں۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG